بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ضلع استور گاؤں میں نماز جمعہ کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اور علماء عظام مسئلہ ہذا  کے بارے میں: ہمارا تعلق ضلع استور گاؤں لوس سے ہیں، گاؤں ہذا  میں ڈھائی سے تین ہزار کی آبادی ہیں، اور اس گاؤں کے مضافات بھی ہیں جو کہ لوس، پائن، ڈاس، ترپی،  حافظ آباد وغیرہ،اس کی آبادی ایک ہزار سے زئد ہیں، اس گاؤں میں ایک بازار  ہے جو ستر 70 سے زائد  دکانوں پر مشتمل ہے، اس میں اشیاءِخوردنی ،  لیڈیز کی شاپ، میڈیکل سٹور،بائیک مکینک، سبزی اور پھل فروش کی دکانیں،آٹا چکی کی تین عدد اور لکڑی کے کارخانے تین عدد ہیں،  اس کے علاوہ بوائز ہائی اسکول اور لوس پائن  میں گرلز ہائی سکول، پرئمری تین سکولز، پرئیویٹ چار سکولز، مدارس اور مکاتب تقریبًا 10  سے بھی زائد  ہیں،  اس گاؤں  میں ڈسپنسری اور کلینکز وغیرہ بھی ہیں، لیکن اس میں نائی  اور موچی کی دکانیں نہیں ہیں بوقت ضرورت شہر سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر جاکر ضرورت پوری کرتے ہیں، نیز شہر اور لوس گاؤں  میں لفٹ کا سسٹم موجود ہیں جس کے ذریعے پانچ منٹ میں استور بازار کے حدود میں پہنچ  سکتے ہیں، اس کے علاوہ لوس اور استور شہر کے درمیان ایک آر سی سی اور لکڑی کا پُل بھی ہیں، گاؤں  کے اندر بعض مقامات میں گھروں کے درمیان دس بیس مرلے کے کھیت کا فاصلہ بھی ہیں براۓ کرم شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائے کہ اس گاؤں  میں جمعہ ہوتا ہے یا نہیں ہے؟نیز وضاحت کریں کہ جمعہ کے لۓ کتنی آبادی شرط ہیں؟ وضاحت فرماکر مشکور فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب لوس گاؤں کی آبادی ڈھائی تین ہزار ہے اور ضروریات کی اکثر اشیاء دستیا ب ہیں تو اس میں جمعہ وعیدین  کا قیام جائز ہے۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيره فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح." 

(کتاب الصلاۃ، فصل بيان شرائط الجمعة، 260/1، ط: سعيد)

وفیہ ایضا: 

"وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة".

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، كتاب الصلاة، فصل بيان شرائط الجمعة، 1/ 260، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے: 

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات: المصرالجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت".

(بدائع، كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج2، ص188، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كما في المضمرات."

(کتاب الصلاۃ، باب الجمعة، 138/2، ط: سعید)

وفیہ ایضا: 

"والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة ‌أنه ‌بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح .... تقع ‌فرضا ‌في ‌القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات".

(حاشية ابن عابدين، كتاب الصلوة، باب الجمعة، 2/ 137 - 138، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102559

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں