بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں شکار کرنے کا حکم


سوال

ذی الحجہ کے شروع عشرہ میں شکار کرنا کیسا ہے ؟

جواب

ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں شریعتِ مطہرہ  کی طرف  سے شکار کرنے پر کوئی ممانعت وارد نہیں  ہے،  اس  لیے ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں شکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

نفسِ  شکار کرنے کا حکم یہ ہے کہ منفعت کے حصول کے لیے پرندوں کا شکار کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس سے لہو و لعب مقصود نہ ہو، اور  شرعی حدود  کا خیال رکھا جائے، اس کی وجہ سے عبادات میں غفلت نہ برتی جائے، اور اس کو  پیشہ بنانا بھی جائز ہے، اور  شکار  کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔

شکار کا جائز ہونا قرآن وحدیث سے ثابت ہے، اللہ  تعالی نےخشکی اور سمندر دونوں کے شکار کو حلال کیا ہے، بلکہ شکاری کتے کی شرائط بھی قرآنِ مجید میں بیان کی گئی ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے حلال پرندے  کھانا حلال کیا ہے اور ان کو انسانوں کے نفع کے لیے بنایا ہے، اس لیے ان کا شکار کرنا بھی جائز ہے۔ البتہ شکار کرکے زندہ پکڑنے یا ذبح کرنے کی صورت میں پرندے کی جتنی راحت ہوسکے، اس کا خیال رکھنا چاہیے، (مثلاً: زندہ رکھنے کی صورت میں اس کی غذا کا خیال رکھنا، صاف اور  کھلی جگہ میں رکھنا، اور ذبح کرنا ہو تو تیز دھار چھری سے ذبح کرنا وغیرہ)،بلاوجہ یا ضرورت سے زیادہ اسے اذیت پہنچانا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( هو مباح ) بخمسة عشر شرطاً مبسوطة في العناية، وسنقرره في أثناء المسائل ( إلا ) لمحرم في غير المحرم أو ( للتلهي ) كما هو ظاهر (أو حرفةً) على ما في الأشباه.

قال المصنف: وإنما زدته تبعاً له، وإلا فالتحقيق عندي إباحة اتخاذه حرفةً؛ لأنه نوع من الاكتساب، وكل أنواع الكسب في الإباحة سواء على المذهب الصحيح، كما في البزازية وغيرها". (27/234)

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"( كتاب الصيد ) قال الشيخ الإمام الأجل الزاهد شمس الأئمة وفخر الإسلام أبو بكر محمد بن أبي سهل السرخسي رحمه الله إملاءً: اعلم بأن الاصطياد مباح في الكتاب والسنة، أما الكتاب فقوله تعالى: {وإذا حللتم فاصطادوا} وأدنى درجات صفة الأمر الإباحة، وقال الله تعالى: {أحل لكم صيد البحر} الآية، والسنة قوله صلى الله عليه وسلم: {الصيد لمن أخذه}، فعلى هذا بيان أن الاصطياد مباح مشروع؛ لأن الملك حكم مشروع فسببه يكون مشروعاً، وهو نوع اكتساب وانتفاع بما هو مخلوق لذلك فكان مباحاً، ويستوي إن كان الصيد مأكول اللحم أو غير مأكول اللحم لما في اصطياده من تحصيل المنفعة بجلده أو دفع أذاه عن الناس". (11/398)

فتح الباری میں ہے:

"(قوله: باب كل لهو باطل ) إذا شغله أي شغل اللاهي به عن طاعة الله أي كمن النهي بشيء من الأشياء مطلقاً سواء كان مأذوناً في فعله أو منهياً عنه كمن اشتغل بصلاة نافلة أو بتلاوة أو ذكر أو تفكر في معاني القرآن مثلاً حتى خرج وقت الصلاة المفروضة عمداً فإنه يدخل تحت هذا الضابط، وإذا كان هذا في الأشياء المرغب فيها المطلوب فعلها فكيف حال ما دونها". (11/91ط:دارالمعرفة)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 61):

"أما الأول فيباح اصطياد ما في البحر والبر مما يحل أكله وما لا يحل أكله، غير أن ما يحل أكله يكون اصطياده للانتفاع بلحمه وما لايحلّ أكله يكون اصطياده للانتفاع بجلده وشعره وعظمه أو لدفع أذيته إلا صيد الحرم فإنه لا يباح اصطياده إلا المؤذي منه".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144212200175

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں