بلوچستان میں جہاں ہماری رہائش ہے، وہاں ذکری فرقہ سے وابستہ افراد بھی آباد ہیں، پڑوس بھی ہوتا ہے، ایسے افراد نکاح کروانے ہمارے علماء کرام کے پاس آتے ہیں۔
کیا ذکریوں کا نکاح پڑھانا جائز ہے؟ اور جو شخص ایسا کرتا ہو، اس کا کیا حکم ہے؟ اور حکم کی علت کیا ہے؟
ذکری فرقہ کا نکاح پڑھانا جائز نہیں ،اگر کسی کو معلوم تھا کہ ذکری فرقہ کا نکاح پڑھانا جائز نہیں ، پھر بھی جان بوجھ کرمسلمان سمجھتے ہوئے نکاح پڑھایا ہے تو اس پر لازم ہےکہ وہ تجدید ایمان اورتجدید نکاح کرے۔
اوراگر اس مسئلہ کا علم نہیں تھا غلطی سے نکاح پڑھایا تو اس پر تجدید ایمان اورتجدیدنکاح کرنا ضروری نہیں ، البتہ اس پر تو بہ استغفار کرنا لازم ہے ۔
شرح الفقہ الاکبر میں ہے:
" قال الملا علی قاری :أنه إذا اعتقد الحرام حلالاً فإن كان حرمته لعينه، وقد ثبت بدليل قطعي يكفر، وإلا فلا بأن تكون حرمته لغيره، أو ثبت بدليل ظني، وبعضهم لم يفرق بين الحرام لعينه ولغيره، فقال: من استحل حراما، وقد علم في دين النبي ﷺ تحريمه لنكاح ذوي المحارم، أو شرب الخمر أو أكل ميتة، أو دم، أو لحم خنزير من غير ضرورة فكافر"
( منها استحلال المعصية،ص:254،ط:دارالكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح وظاهره أنه أمر احتياط."
(کتاب الجهاد ،باب المرتد،ج:4،ص؛230،ط:سعيد)
فتاوی شامی ہے:
"ما كان من ضروريات الدين و هو ما يعرف الخواص و العوام أنه من الدين كوجوب اعتقاد التوحيد و الرسالة و الصلوات الخمس و أخواتها يكفر منكره."
(کتاب الصلاۃ، باب: الوتر والنوافل، ٢ / ٥، ط: دار الفكر)
فتاوی فرید یہ میں ہے:
سنی شیعہ نکاح کرنے والوں اور اس مجلس میں شرکت کرنے والوں کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید سنی المذہب ہے اور صالح شیعہ غالی ہے اب زید نے اپنی سنی لڑکی کا نکاح صالح کے لڑکے کے ساتھ کر دیا ہے جو کہ باپ جیسا غالی شیعہ ہے، اس مجلس نکاح میں عام مسلمانوں نے بھی شرکت کی ، اب دریافت طلب یہ ہے کہ ان شرکاء عقد کو تجدیدنکاح کی ضرورت ہے یا نہیں؟ ان مذکورہ شرکاء کو نماز عید، جمعہ، جنازہ وغیرہ میں شریک ہونے دیا جائے یانہیں؟ اور لڑکی کا نکاح بغیر طلاق کے کسی اور جگہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
المستفتى : مولوی عطاء اللہ چکڑالوی میانوالی ۵/۲/۱۹۷۰
الجواب: یہ نکاح باطل اور کالعدم ہے ،لكون الزوج كافراً كما في رد المحتار۳۹۸:۲ وبهذا ظهر ان الرافضي ان كان ممن يعتقد الالوهية في على او ان جبرئيل غلط في الوحى او كان ينكر صحبة الصديق او يقذف السيدة الصديقة فهو كافر لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة یہ لڑکی بغیر طلاق حاصل کرنے کے دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے، اور یہ ناکح اور گواہ اور نکاح خوان اگر مستحل ہوں تو ان پر تو بہ ﴿۲﴾ اور تجدیدنکاح ضروری ہے ورنہ ضروری نہیں ہے اور نماز و عبادت سے ان کا روکنا حرام ہے۔وهو الموفق."
(کتاب النکاح ،ج:4،ص:478،ط:دارالعلوم حقانیۃ)
فتاویٰ ختم نبوت میں ہے:
"دختر سنیہ کا نکاح مرزائی عقیدے کے شخص سے جائز نہیں ہے، پس ملا نے فسادِ عقیدہ اس مرازائی کے جاننے کے باوجود نکاح پڑھا وہ گناہ گار فاسق ہے، اور اس کی بیعت درست نہیں، اور امامت اس کی مکروہِ تحریمی ہے، مگر اس کا نکاح باقی ہے، اور حاضرین کا نکاح بھی باقی ہے، ان سب کو توبہ کرنا چاہیے، اور ظاہر کر دینا چاہیے کہ یہ نکاح جو مرزائی سے ہوا، صحیح نہیں ہوا، یہ اس صورت میں جب کہ اس ملا نے اور حاضرین نے اس قادیانی کو مسلمان نہ جانا ہو، اسی طرح کافر و مسلمان کے نکاح کو جائز نہ تصور کیا ہو، ورنہ سب کو تجدیدِ ایمان و نکاح کرنا ہو گا۔"
(کتاب النکاح،جلد:1، صفحہ:423 ،ط:عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102852
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن