بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ذکر و اذکار میں مصروف شخص کے لیے سلام کے جواب کا حکم


سوال

1-  اگر ہم ذکر کر رہے ہوں جیساکہ درود شریف یا آیت الکرسی اور اسی دوران کوئی شخص ہمیں سلام کرے تو کیا ہم اس کے سلام کا جواب فوراً دیں گے یا آیت الکرسی، درود شریف مکمل کرنے کے بعد دیں گے؟

2- اگر ہم اس کے سلام کا جواب آیت الکرسی ختم کرنے کے بعد دل میں دیتے ہیں تو اس کو یہ نہ لگے کہ اس نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں درود شریف، آیۃ الکرسی  پڑھنے والے شخص کو  کوئی شخص سلام کرے تو اس کے لیے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے،  بلکہ دورد شریف یا آیۃ الکرسی پڑھنے کے درمیان کوئی سلام کرے تو اسے مکمل کرکے  اس کو جواب دینا چاہیے، اور  درود شریف اور آیۃ الکرسی مکمل کرنے کے بعد اگر سلام کا جواب دینا چاہے تو   آہستہ یا بلند آواز  دونوں طریقوں سے  سلام کا جواب دے سکتا ہے، اس میں ممانعت نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"یکره السلام علی العاجز عن الجواب حقیقةً کالمشغول بالأکل أو الاستفراغ، أو شرعاً کالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن، ولو سلم لایستحق الجواب".

( کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا،۱/ ۶۱۷)

الفتاوى الهندية (5/ 325):

"السلام تحية الزائرين، والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم، فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم، ولهذا قالوا: لو سلم عليهم الداخل وسعهم أن لا يجيبوه، كذا في القنية.

يكره السلام عند قراءة القرآن جهراً، وكذا عند مذاكرة العلم، وعند الأذان والإقامة، والصحيح أنه لا يرد في هذه المواضع أيضاً، كذا في الغياثية."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں