بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذکر کردہ الفاظ سے طلاق کا حکم


سوال

میں اس سال اعتکاف پر بیٹھا تھا اور جانے سے پہلے میں نے اپنی بیوی سے کہا آپ اپنی امی کے گھر چلی جانا اگر چاہو تو اس نے کہا ٹھیک ہے۔میں نے کہا گھر واپس آتے رہنا اور call کرتی رہنا گھر پر اس نے کہا ٹھیک ہے میں چلا گیا ۔میرا بھائی آتا تھا افطاری اور سحری دینے میں اس سے پوچھتا تھا کہ اس کی call آئی یہ اس نے گھر چکر لگایا بھائی نے کہا نہیں میں Almostہر دن پوچھتا اور یہی جواب ملتا تھا کہ نہ وہ آئی اور نہ ہی callآئی اس وجہ سے مجھے بھائی اور ماموں سے update ملی کے گھر والے بھی بہت خلاف ہوگئے ہیں اور رشتہ ختم کرنے تک کی بات ہورہی میں بھی بہت افسردہ تھا اور غصے میں بھی تھا کہ میری بیوی کو میرا احساس نہیں ہے ۔جب میری قدر نہیں تو شادی کیوں کی خیر میرا بھی دل خراب ہوگیا تھا خیر پھر عید سے ایک دو دن پہلے میں نے بھائی سے پوچھا کہ وہ آئی یہ اس کی call آئی اس نے کہا نہیں پھر میں نے بھائی سے کہا اس سے بول دینا عید اپنے ماں باپ کے گھر ہی گزارے واپس آنے کی کوئی ضرورت نہیں اس کو اپنے ماں باپ کا گھر ہی پیارا ہے ادھر ہی رہے یہ بات بھائی کو بول دی اور اس نے بھی آگے بتا دیا کہ بھائی کہہ رہا عید اپنے گھر ہی گزارے میرے دل میں تھا کہ میں اس کی شکل نہ دیکھوں گا ۔ میں نے یہ الفاظ دل برداشتہ ہوکر اس نیت سے بولے کے وہ مجھ سے جدا ہوجائے اور میرے ساتھ نہ رہے ، اور رشتہ ختم کرنے کی نیت سے بولے تھے ۔(ایک سوچ ہوتی ہے نہ کہ میرا اس کا تعلق نہ رہے یہ میرا اس کا کوئی واسطہ نہ رہےیہ سوچ تھی میری ۔ میں نے video دیکھی طلاق بائن کے حوالے سے۔ کیا اس سے طلاق ہو جائے گی؟)

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی لفظ سے طلاق کی نیت کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ لفظ طلاق کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس میں طلاق کا احتمال موجود ہو صراحۃ یا کنایۃ   ۔ ایسا لفظ جو طلاق کا احتمال نہیں رکھتا اس سے اگر طلاق دینے کی نیت کی بھی تو  کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔صورت مسئولہ میں آپ نے جو الفاظ کہے ہیں بیوی سے متعلق  (عید اپنے ماں باپ کے گھر ہی گزارے ،واپس آنے کی کوئی ضرورت نہیں ،اس کو اپنے ماں باپ کا گھر ہی پیارا ہے ادھر ہی رہے)شرعی طور پر یہ جملے الفاظ طلاق میں سے نہیں ہیں ،نہ صریح نہ کنایہ؛ لہذا اس  صورت میں سائل کی بیوی پر ان الفاظ سے  کوئی طلاق واقع  نہیں ہوئی نکاح برقرار ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وركنه لفظ مخصوص.

وفي الرد: (قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية."

(ر‌‌د المحتار، كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج: 3، ص: 230، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100754

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں