بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی ذکرکا حکم


سوال

اجتماعی ذکر کاشرعی حکم کیا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ اصولی اور عمومی طور پر تو تنہائی میں  آہستہ آواز  سے ذکر کرنا بہتر ہے، لیکن  اجتماعی طور پر جہرًا ذکر کرنا بھی شریعتِ  مطہرہ کی رو سے جائز ہے، اس کو  مطلقًا بدعت سمجھنا درست نہیں ہے، کیوں کہ جہرًا  ذکر کرنے کی اصل  حدیث سے ثابت ہے؛ حدیثِ قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

’’ جب میرا بندہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے یاد کرتا ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں (یعنی چھپ کر آہستہ سے تنہائی میں) یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں (یعنی تنہائی میں جیسے اس کی شان ہے) یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی مجمع میں یاد کرتا ہے (یعنی لوگوں کے درمیان جہرًا میرا ذکر کرتا ہے) تو میں اس سے بہتر اور افضل مجمع (یعنی فرشتوں کے مجمع) میں اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔‘‘

بلکہ فقہاءِ کرام نے بعض احوال و اشخاص کے اعتبار سے ذکر بالجہر کو  افضل قرار دیا ہے۔لیکن اس کے لیے کچھ شرائط ہیں:

 1: ریا ونمود کا خوف نہ ہو۔

2: اصرار والتزام نہ ہو، یعنی شرکت نہ کرنے والوں کو اصرار کرکے شرکت پر آمادہ نہ کیا جائے اور شریک نہ ہونے والوں پر طعن وتشنیع نہ کی جائے۔

3: آواز شرکاءِ حلقہ تک ہی محدودو رکھی جائے،مسجد میں  ذکر  یا کوئی بھی ایسا عمل اتنی  آواز سے کرنا جس سے دیگر نمازیوں یا اہلِ محلہ کو تشویش ہوتی ہو ، جائز نہیں ہے۔

لہٰذا اگر کوئی متبعِ شریعت، شیخِ  کامل اپنے مریدوں کی اصلاح  و تربیت کے  لیے کسی ایسی جگہ پر ذکر کی مجلس منعقد کرے جہاں دیگر عبادت کرنے والوں کی عبادت میں خلل نہ پڑتا ہو  اور اسے لازم و ضروری نہ سمجھا جائے، بلکہ تربیت کا حصہ سمجھا جائے، نیز اسے ہی افضل نہ سمجھا جائے اور ذکر بالجہر نہ کرنے والوں کو برا یا کم تر نہ سمجھا جائے تو اس کی اجازت  ہوگی،   لیکن رسمی طور پر بلاکسی معتبر مربی کے ایسی مجلسیں منعقد کرنا جہاں حدود کی رعایت نہ رکھی جاتی ہو، یا ان مجلسوں میں شرکت کو ایسا لازم سمجھنا کہ شریک نہ ہونے والے کو  حقارت کی نظر سے دیکھا جائے یا ان پر جبر کیا جائے، یا ایسی جگہ پر مجلس منعقد کرنا جس سے دیگر عبادات گزاروں کی عبادت میں خلل پڑے، یہ قطعاً جائز نہیں ہے، اس سے احتراز لازم ہے، اسی طرح اگر اسی کو افضل سمجھا جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے،  اور  بہر حال بہتر  یہی  ہے کہ ذکر کے معمولات لوگ اپنے اپنے طور پر تنہائی میں پورے کیا کریں۔

صحيح البخاري" میں ہے:

"حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، سمعت أبا صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "يقول الله تعالى: أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه إذا ذكرني، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم."

(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب التوحید، باب قول الله تعالى: {ويحذركم الله نفسه}، رقم الحدیث:7405)

سنن ابن ماجه"میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم من بعض حجره، فدخل المسجد، فإذا هو بحلقتين، إحداهما يقرءون القرآن، ويدعون الله، والأخرى يتعلمون ويعلمون، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «كل على خير، هؤلاء يقرءون القرآن، ويدعون الله، فإن شاء أعطاهم، وإن شاء منعهم، وهؤلاء يتعلمون ويعلمون، وإنما بعثت معلما» فجلس معهم."

(سنن ابن ماجة،  باب فضل العلماء والحث على طلب العلم، رقم الحدیث:229)

ترجمه : "حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کسی حجرہ سے مسجد میں آئے،  آپ  ﷺ نے دیکھا کہ دو حلقے ہیں:  ایک  قرآن کی تلاوت کر رہا ہے اور دعا مانگ رہا ہے اور دوسرا حلقہ علم سیکھنے سکھانے میں مشغول ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  دونوں بھلائی پر ہیں،  یہ قرآن پڑھ رہے ہیں اور اللہ سے مانگ رہے ہیں۔ اللہ چاہیں تو ان کو عطا فرمائیں اور چاہیں تو نہ دیں اور یہ علم دین سیکھ سکھا رہے ہیں اور مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے،  چنانچہ آپ  ﷺ حلقۂ  علم میں تشریف فرما ہوئے۔"

رد المحتار میں ہے:

"مطلب في رفع الصوت بالذكر.

(قوله: و رفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارةً قال: إنّه حرام، وتارةً قال: إنّه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو: "«وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص و الأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر و الإخفاء بالقراءة و لايعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي»؛ لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل؛ لأنه أكثر عملًا و لتعدي فائدته إلى السامعين، و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همّه إلى الفكر، و يصرف سمعه إليه، و يطرد النوم، و يزيد النشاط. اهـ. ملخصًا، و تمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا و خلفًا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد و غيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ ...إلخ."

(رد المحتار، کتاب الصلوٰۃ، باب مایفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیہا، فروع أفضل المساجد، 660/1، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں