بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم


سوال

والد صاحب نے بہت سال قبل ایک دکان خریدی تھی اور اب  والد صاحب  کی رضامندی سے بیٹوں نے اس کو بیچ دیا ہے، اس کی مالیت کل 600000 ہے اور والد صاحب حیات ہیں،  اب خاندان کا فیصلہ یہ  ہے کہ ان پیسوں  کو آپس میں تقسیم کیا جائے جس میں والدین کو بھی حصہ ملے اور 3 بہنوں اور4 بھائیوں کو بھی حصہ ملے،  اب شریعت کے مطابق تقسیم کیسے ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ زندگی میں صاحبِ جائیداد اپنی جائیداد اور تمام مملوکہ اشیاء  پر ہر طرح کے جائز تصرف کرنے  کا اختیار رکھتا ہے، چاہے خود استعمال کرے ، چاہے کسی کو ہبہ کرے۔ نیز صاحبِ جائیداد جب تک زندہ ہے، اس کی اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں شرعاً کوئی حق و حصہ نہیں اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہے، تاہم صاحبِ جائیداد  اگر زندگی میں اپنی اولاد کو اپنی جائیداد میں سے کچھ  دینا یا تقسیم کرناچاہے تو یہ ہبہ ہے، اور اس کے لیے شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ تمام اولاد میں برابری کی جائے ، کسی شرعی وجہ کے بغیر کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دے، اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں فرق کرے،(یعنی بیٹیوں کو کم دینا یا نہ دینا جائز نہیں ہے) ، اگر بلا وجہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے کسی کو کم دے یا محروم کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ البتہ اگر اولاد میں سے کسی بیٹے یا بیٹی کے زیادہ نیک و صالح ہونے یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی وجہ سے اس کو دیگر کے مقابلہ میں کچھ زائد دے تو اس کی گنجائش ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں والد کی دکان جو بیٹوں نے والد کی رضامندی سے بیچ دی، اب اگر والد صاحب اس رقم کو  زندگی میں اپنےبیوی بچوں  میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں،  تو  اس کا شرعی طریقہ یہ ہے   کہ تمام جائیداد تقسیم نہ کریں،  بلکہ اپنے  لیے جتنا رکھنا چاہیں رکھ لیں؛ تاکہ کسی کی محتاجی نہ ہو اور گزر بسر سہولت سے ہوسکے، اس کے بعد کل رقم کے آٹھویں حصے کے بقدر اپنی  بیوی کو دے کر  باقی سب بیٹے اور بیٹیوں کو برابر سرابر  دے دیں۔ البتہ کسی معقول وجہ کی بنا  پر اولاد میں سے کسی کو  اوروں کی بنسبت  کچھ  زیادہ دے  سکتے  ہیں ۔

الدر المختار  مع رد المحتار میں ہے:

"لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، و كذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، و إن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني و عليه الفتوى و لو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم."

    ( ٥/٦٩٦، سعيد  )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100426

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں