بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ذبح کرتے وقت جانور کی دو رگیں کاٹنے کی صورت میں ذبیحہ کا حکم


سوال

ایک  عورت نے ایک  جانور   ذبح کیا اور اس کی دو رگیں کٹیں ۔ اس جانورکا گوشت کھانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مسلمان عورت کا ذبح کیا ہوا جانور  حلال ہےاور اس جانور کا گوشت کھانا بھی جائز ہے،لیکن  ذبح شدہ جانور (چاہے  اسےمسلمان عورت نے ذبح کیا ہو یا مسلمان مرد نے، اس) کے حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور کے گلے کی چاروں رگیں کاٹی جائیں ،اگر تین رگیں کٹ جائیں تب بھی درست ہے اور ذبیحہ حلال ہے،اور اگر صرف دو رگیں ہی کٹیں تو جانور مردار ہوگا اور اس کا کھانا حرام ہوگا۔صورتِ مسئولہ میں چوں کہ  صرف دو رگیں کٹی   ہیں؛ اس لیے یہ جانور مردار کے حکم میں ہے اور اس کا کھانا حلال  نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"المرأة المسلمة والكتابية ‌في ‌الذبح ‌كالرجل."

وفیہ أیضاً:

"‌والعروق ‌التي ‌تقطع في الذكاة أربعة: الحلقوم وهو مجرى النفس، والمريء وهو مجرى الطعام، والودجان وهما عرقان في جانبي الرقبة يجري فيها الدم، فإن قطع كل الأربعة حلت الذبيحة، وإن قطع أكثرها فكذلك عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى، وقالا: لا بد من قطع الحلقوم والمريء وأحد الودجين، والصحيح قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى لما أن للأكثر حكم الكل، كذا في المضمرات."

(كتاب الذبائح، الباب الأول في ركن الذبح وشرائطه وحكمه وأنواعه، ج:5، ص:286،287، ط:رشيدية)

الد المختار میں ہے:

"(‌وعروقه الحلقوم) كله وسطه أو أعلاه أو أسفله: وهو مجرى النفس على الصحيح (والمريء) هو مجرى الطعام والشراب (والودجان) مجرى الدم (وحل) المذبوح (بقطع أي ثلاث منها) إذ للأكثر حكم الكل."

(كتاب الذبائح، ج:6، ص:294،295، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں