بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ذبح کے وقت جانور میں کس قدر حیات کا ہونا لازم ہے؟


سوال

 میں نے ایک بکرے کو ذبح کیا ذبح کرتے وقت اس نے کوئی حرکت بھی نہیں کی اور اس سے خون نکلا ہے؟

جواب

 صورت مسئولہ میں اگر واقعۃ  ذبح سے پہلےبکرا کا  زندہ ہونا یقینی  طور پر معلوم تھا پھر ذبح کے بعد حرکت کرے یا نہ کرے مذبو حہ بکرا حلال ہوگا،اور اگر ذبح کرنے سے پہلے  بکرا کا زندہ ہو نا یقینی طور پر   معلوم نہیں تھا تو ذبح کے بعد مذبوحہ بکرا حرکت نہ کرنے کی صورت  میں حلال نہیں ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے : 

"(وحل) المذبوح (بقطع أي ثلاث منها) إذ للأكثر حكم الكل وهل يكفي قطع أكثر كل منها خلاف وصحح البزازي قطع كل حلقوم ومريء وأكثر ودج وسيجيء أنه يكفي من الحياة قدر ما يبقى في المذبوح."

(‌‌كتاب الذبائح،٢٩٥/٦،ط: دار الفكر)

مجمع الأنهر میں ہے : 

"(ولو ذبح شاة لم تعلم حياتها فتحركت أو خرج منها) أي من الشاة ( دم ) من غير تحرك ( حلت ) أكلها لأن الحركة وخروج الدم لايكونان إلا من الحي وذكر محمد بن مقاتل إن خرج الدم ولم يتحرك لايحل ( وإلا ) أي وإن لم يتحرك أو لم يخرج الدم (فلا) تحل إن لم تعلم حياته وقت الذبح ( وإن علمت ) حياتها وقت الذبح (حلت مطلقًا) أي على كل حال."

(كتاب الأضحية،٥١٥/٢،ط: دار إحياء التراث العربي)

امداد الفتاوی میں ہے:

"اگر ذبح کے قبل  متصل اس کی حیات یقینی ہو تب تو ذبح سے وہ حلال ہو تا ہے خواہ حرکت کر ے یا نہ کرے اور خواہ خون نکلے یانہ نکلے اور اگر حیات یقینی نہ ہو تواس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کو ایسی حرکت ہو جو علامات حیات کی ہو جیسے منہ کا بند کر لینا یا آنکھ کا بندکر لینا یا پاؤں کا سمیٹ لینا یابال کھڑ ے ہو جانا (کما فی الدرالختار ایضا) یا اتنا خون نکلے جیسازندہ کے نکلتا ہے تب تو حلال ہے ،ورنہ حرام "

(كتاب الذبائح ولأضحية والصيد ولعقيقة،٢٤٢/٨،ط:مكتبة رشيدية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411101351

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں