بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ذبح کے بعد جانور حوض میں گرنے کا حکم


سوال

اگر كوئی شخص قربانى كا جانور ذبح کرے اور   وہ جانور بڑے حوض ميں گر جائے تو اس جانور كا حكم كيا ہے؟  

جواب

حلال جانوروں  کے گوشت کے   حلال ہونے  کے لیے شرعی ضابطہ کے مطابق ذبح کرنا ضروری ہوتا ہے، پس  شرعی اصولوں کے مطابق ذبح کرنے کے بعد اگر جانور کو کوئی حادثہ پیش آجائے ( مثلًا کنویں میں یا کسی گڑھے میں گرجائے) تو اس حادثہ کا شرعًا  اعتبار نہیں کیا جاتا ہے، اور نہ ہی  اس جانور کی موت اس حادثہ کی طرف  منسوب کی جاتی ہے، شرعی اصولوں کے مطابق ذبح کرنے سے مراد یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور کی چار رگیں کٹ جائیں،  ایک رگ "نرخرہ" جس سے جانور سانس لیتاہے، دوسری وہ رگ جس سے دانا پانی جاتاہے، اور دو شہہ رگیں جو  "نرخرہ" کے دائیں بائیں ہوتی ہیں، اگر ان چار رگوں میں سے تین رگیں بھی کٹ جائیں تب بھی ذبح درست ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ جانور شرعی طریقہ پر ذبح کیے جانے کے بعد حوض  میں گرا تھا تو اس صورت میں اس جانور کا گوشت حرام نہیں ہوگا، لیکن اگر جانور شرعی طریقہ پر ذبح ہونے سے پہلے ہی حوض میں گر کر پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے مرگیا تو ایسے جانور کا گوشت حرام ہوگا۔

ایک بات یہ بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ اگر جانور ذبح ہونے کے بعد حوض میں گرجائے تو اگرچہ اس کا گوشت حرام تو نہیں ہوگا، لیکن اگر جانور کے جسم پر کوئی نجاست (مثلا خون وغیرہ) لگی ہوئی ہو تو اس سے حوض کا پانی ناپاک ہوجائے گا (بشرطیکہ حوض چھوٹا ہو) اور پانی کے ناپاک ہونے کی وجہ سے گوشت بھی ناپاک ہوجائے گا، اس لیے ایسے گوشت کو استعمال کرنے سے پہلے دھو کر پاک کرنا ضروری ہوگا۔ البتہ اگر حوض بڑا ہو یعنی حوض کے پانی کی سطح کا رقبہ سو شرعی گز یعنی 225 اسکوائر فٹ یا اس سے زیادہ ہو تو اس صورت میں جانور کے جسم پر نجاست لگی ہونے کے باوجود حوض کا پانی اور گوشت پاک رہے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و العروق التي تقطع في الذكاة أربعة: الحلقوم وهو مجرى النفس، والمريء وهو مجرى الطعام، والودجان وهما عرقان في جانبي الرقبة يجري فيها الدم، فإن قطع كل الأربعة حلت الذبيحة، و إن قطع أكثرها فكذلك عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وقالا: لا بد من قطع الحلقوم والمريء وأحد الودجين، والصحيح قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لما أن للأكثر حكم الكل، كذا في المضمرات. وفي الجامع الصغير إذا قطع نصف الحلقوم ونصف الأوداج ونصف المريء لا يحل؛ لأن الحل متعلق بقطع الكل أو الأكثر وليس للنصف حكم الكل في موضع الاحتياط، كذا في الكافي.وعن محمد - رحمه الله تعالى - إذا قطع الحلقوم والمريء والأكثر من كل ودجين يحل وما لا فلا، قال مشايخنا: وهو أصح الجوابات، وإذا ذبح الشاة من قبل القفا، فإن قطع الأكثر من هذه الأشياء قبل أن تموت حلت، وإن ماتت قبل قطع الأكثر من هذه الأشياء لا تحل، ويكره هذا الفعل؛ لأنه خلاف السنة، وفيه زيادة إيلام، كذا في المحيط."

(كتاب الذبائح ، الباب الأول في ركن الذبح وشرائطه وحكمه وأنواعه، ٥ / ٢٨٧، ط:دار الفكر) 

المبسوط للسرخسی میں ہے: 

"و إن ذبح الشاة فاضطربت فوقعت في ماء أو تردت من موضع لم يضرها شيء؛ لأنّ فعل الذكاة قد استقر فيها فإنما انزهق حياتها به و لا معتبر باضطرابها بعد استقرار الذكاة فهذا لحم وقع في ماء أو سقط من موضع."

( كتاب الذبائح، نحر البقر، ١٢ / ٣ - ٤، ط:  دار المعرفة)

"والمعتبرذراع الکرباس، کذافي الظهیریة. وعلیه الفتویٰ، کذافي الهدایة. وهو ذراع العامة: ست قبضات، أربع وعشرون أصبعاً، کذافي التبیین".

(الفتاوى الهندية، ص ۱۱ ج۱ الفصل الثالث في المیاه، الثاني: المآء الراکد)

" وإذا کان الحوض عشراً في عشر فهو کبیر لا یتنجس بوقوع النجاسة ... إذا لم یرلها أثر".

( حلبي کبیر ، فصل في أحکام الحياض، ص: ۹۸، ط سهیل أکادمي، لاهور)

 "الحوض إذا کان عشراً فی عشرٍ أي طوله عشرة أذرع وعرضه کذلک، فیکون وجه الماء مائة ذراع".

( حلبي کبیر ، فصل في أحکام الحیاض، ص ۹۷: ط سهیل أکادمي، لاهور )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں