بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زیارت کی نیت سے خانہ کعبہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصاویر بنانے کا حکم


سوال

زیارت کی نیت سے خانہ کعبہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصاویر بنانے کا حکم؟ 

جواب

خانہ کعبہ اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تصویر بنانا جائز ہے بشرط یہ کہ تصویر میں انسان یا کسی جاندار کی تصویر شامل نہ ہو ،البتہ زیارت کی نیت سے خانہ کعبہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصاویر بنانا قرآن و سنت سے ثابت نہیں،لہذااس سے اجتناب کرنا چاہیے،ہاں اگرکوئی شخص محبت کی شدت میں زیارت کی نیت سے دیکھ لے تو وہ گنہگار نہیں ہوگا۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"(وعن عابس بن ربيعة قال: رأيت عمر - رضي الله عنه - يقبل الحجر، ويقول: إني لأعلم أنك حجر ما تنفع) ، وفي نسخة: (لا تنفع ولا تضر) أي: في حد الذات (ولولا أني رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقبلك ما قبلتك) ، وفيه إشارة منه - رضي الله عنه - إلىأن هذا أمر تعبدي فنفعل، وعن علته لا نسأل، وإيماء إلى التوحيد الحقيقي الذي عليه مدار العمل...

وفيه أن لا يظن بأرباب العقول - ولو كانوا كفارا - أن يعتقدوا أن الحجر ينفع ويضر بالذات، وإنما كانوا يعظمون الأحجار، أو يعبدونها، معللين بأن هؤلاء شفعاؤنا عند الله، ومقربونا إلى الله زلفى، فهم كانوا يمسحونها، ويقبلونها تسببا للنفع، وإنما الفرق بيننا وبينهم أنهم كانوا يفعلون الأشياء من تلقاء أنفسهم، ما أنزل الله بها من سلطان، بخلاف المسلمين ; فإنهم يصلون إلى الكعبة بناء على ما أمر الله، ويقبلون الحجر بناء على متابعة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وإلا فلا فرق في حد الذات، ولا في نظر العارف بالموجودات بين بيت وبيت، ولا بين حجر وحجر، فسبحان من عظم ما شاء من مخلوقاته من الأفراد الإنسانية، كرسول الله - صلى الله عليه وسلم - والحيوانية كناقة الله، والجمادية ; كبيت الله، والمكانية كحرم الله، والزمانية كليلة القدر، وساعة الجمعة، وخلق خواص الأشياء في مكتوباته، وجعل التفاوت والتمايز بين أجزاء أرضه وسماواته.(متفق عليه)

قال ابن الهمام - رحمه الله: وروى الحاكم حديث عمر، وزاد فيه: فقال علي بن أبي طالب - رضي الله عنه: بلى يا أمير المؤمنين يضر وينفع، ولو علمت تأويل ذلك من كتاب الله لقلت كما أقول ; {وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى} [الأعراف: 172] فلما أقروا أنه الرب - عز وجل، وأنهم العبيد كتب ميثاقهم في رق، وألقمه في هذا الحجر، وأنه يبعث يوم القيامة، وله عينان، ولسان، وشفتان يشهد لمن وافاه، فهو أمين الله في هذا الكتاب، وقال له عمر - رضي الله عنه: لا أبقاني الله بأرض لست بها يا أبا الحسن. وقال: ليس هذا الحديث على شرط الشيخين، فإنهما لم يحتجا بأبي هارون العبدي، ومن غرائب المتون ما في ابن أبي شيبة في آخر مسند أبي بكر - رضي الله عنه، قال رجل رأى النبي - صلى الله عليه وسلم - «أنه - عليه الصلاة والسلام - وقف عند الحجر، فقال: " إني لأعلم أنك حجر لا تضر، ولا تنفع، ولولا أمرني ربي أن أقبلك ما قبلتك» " فليراجع إسناد ابن أبي شيبة، فإن صح يحكم ببطلان حديث الحاكم لبعد أن يصدر هذا الجواب عن علي، أعني قوله: " بل يضر، وينفع " بعدما قال النبي - صلى الله عليه وسلم: " لا يضر، ولا ينفع " ; لأنه صورة معارضة، لا جرم أن الذهبي قال في مختصره عن العبدي: إنه ساقط، وعمر - رضي الله عنه - إنما قال ذلك، أو النبي - صلى الله عليه وسلم - إزالة لوهم الجاهلية عن اعتقاد الحجارة التي هي أصنام اهـ.

فمعنى قوله - صلى الله عليه وسلم: أنه ( «لولا أمرني ربي أن أقبلك لما قبلتك» )إيماء إلى العبودية على الطريقة التعبدية، والتنزل والتواضع تحت الأحكام الربوبية، وإلا فالعقل يتحير في تقبيل سيد الكونين - الذي لولاه لما خلق الأفلاك - لحجر من الأحجار الذي من جنس الجمادات الذي من أحقر أجناس المخلوقات، ولو أنه من يواقيت الجنة حقيقة، ولو كان له عينان ولسان، وفي جوفه ميثاق الرحمن، وإنما هو من تنزلات الألوهية، والتجليات السبحانية حيث جعل لعبيده حرما يأوون إليه، ويلتجئون لديه، ويتوجهون، ويقبلون عليه عند صلاتهم، وسائر عباداتهم، وحلالاتهم، ويمينا يقبلونها، ويمسحون أيديهم، ويضعون وجوههم عليها، كما أشار إليه - صلى الله عليه وسلم - " «الحجر يمين الله في الأرض يصافح بها عباده» ". رواه الخطيب، وابن عساكر، عن جابر، مرفوعا. وروى الديلمي في مسند الفردوس، عن أنس مرفوعا ( «الحجر يمين الله فمن مسحه فقد بايع الله» ) ، وهذا كله تأنيس لعباده حيث غلب على أغلبهم التعلق بالأمر المحسوس في بلاده."

(كتاب المناسك، باب دخول مكة و الطواف، الفصل الثالث، ج:5، ص:1795-1796،ط:دار الفكر)

کفایت المفتی میں ہے:

"کفایت المفتی میں حضرت حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا مفتی اعظم کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کو  نعلین شریف کے مسئلہ سے متعلق جوابی خط مذکورہے جس میں زیرِ بحث مسئلہ سے متعلق بھی رہ نمائی و اصولی ہدایت مل جاتی ہے:

"ارشاد نامه حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب مد ظلهم

بجواب مکتوب مفتی محمد کفایت اللہ صاحب دامت فیوضہم

تصحيح الجواب وتثوثيقه من الاحقر الافقر اشرف على عفى عنه

بعد الحمد والصلوۃ احقر نے دونوں جواب پڑھے جو بالکل حق ہیں اور صحت معنی کے ساتھ اسلوب  کلام میں ادب کی رعایت خاص طور پر قابل داد ہے، جس کی ایسے نازک مسائل میں سخت ضرورت ہے، اب ان کے مضامین کے متعلق بغرض توضیح بعض ضروری معروضات پیش کرتا ہوں:

نمبر 1: بدلائل ثابت ہو چکا کہ یہ اعمال شرعیہ نہیں اور ایسے اعمال کے لیے جن کا منشاحب و شوق طبعی دادب ہو مستقل دلیل کی حاجت نہیں، خلاف دلیل نہ ہونا کافی ہے۔" كما قال عثمان ولا مست ذکری بیمینی منذ بايعت رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم ." رواه ابن ماجه،  ظاہر ہے کہ یہ رعایت بنابر حکم شرعی نہیں ورنہ ثوب نجس کا دلک یا عصر بھی یمین سے جائز نہ ہو تا۔

نمبر 2: جب ان اعمال کی بنا ادب و حب و شوق طبعی ہے اور بعض اوقات صرف تشاکل و تشابه بھی منشا ان جذبات کا ہو جاتا ہے تو وہاں بھی اجازت دی جائے گی ۔" كما في فتاوى العلامة محمد الحى صفحه ۳۲۲- نقل عياض عن احمد بن فضلويه الزاهد الغازى قوله ما مسست القوس بيدى الا على طهارة منذ بلغنى ان رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم اخذ القوس بیدہ" ظاہر ہے کہ مبنی اس کا بجز دونوں قوس کے تشابہ کے اور کیا تھا؟ پھر تشابہ و تشاکل عام ہے،  ناقص ہو یا تام اور کسی عین کا ہو یا تمثال کا،  چناں چہ حضرت مولانا گنگوہیؒ نے تصویر روضہ منورہ و نقشه مدینه منوره و مکه مکرمه واقعه دلائل الخیرات کے باب میں جواب دیا ہے کہ "بوسه دادن و چشم مالیدن بر یں نقشه ہا ثابت نیست، و اگر از غایت شوق سر زد ملامت و عتاب هم بر جا نباشد اه"( من الفتاوی الامداد یہ ،جلد 3 ،ص: 140)،  اور نعل شریف کی تمثال اگر پوری کی مطابق بھی نہ ہو مگر کسی درجہ میں تو مشابہ ضرور ہے، جیسا روضہ شریفہ کا نقشہ واقعہ ولائل الخیرات، پس غایت مافی الباب تطابق نام کا دعوی و اعتقاد نا جائز و محتاج نقل صحیح ہو گا، باقی مطلق تشابہ تو احادیث سے ثابت ہے۔

نمبر 3: ایسے احکام حبیہ شوقیہ میں تعدیہ نہیں ہوتا اس لیے ضروری نہیں کہ فعل مبارک کے تمثال کے ساتھ کوئی معاملہ کرنا مستلزم ہو،  دوسرے تبرکات کے تماثیل کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرنے کو،

" كما قال بعض العشاق:

امر على الديار ديار    ليلي اقبل ذا الجدار وذا الجدارا 

وما حب الديار شغفن قلبي    ولكن حب من سكن الديارا

ولم يقل اقبل ذى الثمار وذى الثمارا"

اور مثلاً مستعمل طاہر جو تہ پہن کر نہ جانا جس کی بناء محض ادب طبعی عرفی ہے، اس کو مستلزم نہیں کہ جرابیں پہن کر بھی جانا مساجد میں قیا سا خلاف ادب سمجھا جاوے،  اور مثلاً  تقبیلِ تمثالِ روضۂ شریفہ کا جواز (مذکور نمبر 2) اس کو مستلزم نہیں کہ اصل قبر شریف کی تقبیل کی اجازت دی جائے ،بلکہ اس کا مدار اہل ادب کے ذوق و عادت پر ہے، باقی تمثال نعل شریف کی تخصیص اول تو ہو جہ ذوقی  کے محل سوال نہیں،  لیکن ممکن ہے کہ داعی اس تخصیصِ عادی کا طالب کا اپنے لیے غایت تذلیل اختیار کرنا ہو کہ اس سے زیادہ درجہ کی چیزوں تک میری کہاں رسائی ہوتی...

نمبر 4: یہ سب تفصیل حکم فی نفسہ کی ہے، ورنہ جہاں احتمال غالب مفاسد کا ہو وہاں نقشہ تو کیا خود اصل تبرکات کا انعدام بھی بشرط عدم اہانت و بشرط عدم لزوم ابقا مطلوب و مامور بہ ہو گا جیسا حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا قصہ قطع شجرہ کا منقول ہے ۔"

(کتاب السلوک و الطریقۃ، فصل سوم : توسل، ج:2، ص:93-94، ط: دار الاشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں