بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زیادتی کا بدلہ اور معافی کا شرعی حکم


سوال

میراسوال یہ ہے کہ کیا ظالم کو معاف کردینا چاہئے ؟اگرکوئی مجھ پرظلم کرتا ہےاورمیں اس کو معاف نہیں کرتاتوکیا یہ صحیح ہے ؟اگروہ ظالم مسلمان ہوتوکیا حکم ہے،اگروہ ظالم غیرمسلم ہواوراس نے آپ پرظلم وزیادتی کی ہواورآپ یہ نیت کرلیں کہ اگریہ شخص مسلمان ہوگیاتواس کو میں نے معاف کیااوراگریہ غیرمسلم ہی مرگیا تومیں نے اس کو معاف نہیں کیا۔کیاایساکرناصحیح ہے؟یہاں ظلم سے مراد میری بہت بڑی ناانصافی اوردھوکہ وغیرہ ہے جس سے اس نے آپ کو نقصان پہنچایا ہو۔

جواب

قرآن کریم اوراحادیثِ مقدسہ کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ کسی کے ظلم و زیادتی کا بدلہ لینا اس ظلم کے بقد رگوکہ جائز ہے لیکن معاف کردینا اورمصالحت کرلینا بہت باعث اجروثواب ہے۔ اس میں غیر مسلم کی تخصیص نہیں ، معاف کرنے پر جو اجر ملنے کا وعدہ ہے وہ دونوں صورتوں میں ملیگا، جہاں تک اپنی معافی کوغیر مسلم ظالم کے اسلام پرموقوف رکھنے کی بات ہے تو اپنی جگہ ایک اچھی سوچ ہے لیکن پھر بھی معاف کردینا افضل ہے ،باقی وہ کفر کی حالت میں مرجانے پر خود ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ اپنے کفر کی سزا بھگت لے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں