بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زیادہ مہر مقرر کرنا


سوال

میں نے سنا ہے کہ مہر مرد کی کمائی کے حساب سے رکھوانا چاہئے لیکن مفتی صاحب اگر کوئی عورت اپنے تحفظ کیلئے( گو وہ عورت زیادہ حسین نہ ہو نہ امیر ہو) سات یا پچاس کروڑ مہر رکھوائے تو کیا وہ گناہ گار ہو گی؟

جواب

عورت کے مہر کے بارے میں اصل یہی ہے کہ عورت مہرِ مثل کی حقدار ہوتی ہے، یعنی اس لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، باکرہ یا ثیبہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا اس کا بھی اتنا مہر  ہے، لیکن شریعت نے فریقین کو اختیار دیا ہے کہ باہمی رضامندی سے مہرِ مثل سے کم یا زیادہ بھی مہر مقرر کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو، اس کو  ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں اور نکاح کے وقت فریقین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوگی۔ استطاعت سے بہت زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔لہذا اگر لڑکی والوں کی طرف سے زیادہ مہر رکھنے کا تقاضا کیا جائے اور لڑکے والوں کی استطاعت نہ ہو تو ان کو منع کرنےکا اختیار ہے۔نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو باعث برکت فرمایا ہے جس میں عورت کا مہر کم رکھا ہو۔ 

حدیث مبارکہ میں ہے:

"عن عائشة -رضي اﷲ عنها- قال النبي ﷺ: إن أعظم النکاح برکةً أیسره مؤونةً."

(شعب الإیمان، باب الاقتصاد في النفقة وتحریم أکل المال الباطل،ج5،ص254، دارالکتب العلمیة بیروت )

مرقاۃالمفاتیح میں ہے:

"(وعن عائشة) رضي الله عنها (قالت: «قال النبي صلى الله عليه وسلم الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة») أي: أفراده وأنواعه (أيسره) أي: أقله أو أسهله، (مؤنة) أي: من المهر والنفقة للدلالة على القناعة التي هي كنز لا ينفد ولا يفنى."

( كتاب النكاح،ج5،ص2049، ط: دار الفكر، بيروت)

لمعات التنقیح میں ہے:

"عمر بن الخطاب) قوله: (لا تغالوا) غلا غلاءً فهو غالٍ ضد رخُصَ، والمراد لا تكثروا (صدقة النساء) بضم الدال بمعنى الصداق كما مر، في بعض النسخ: (صدقات النساء)، والضمير في (إنها) للمغالاة، و (المكرمة) بفتح الميم وضم الراء بمعنى الكرم.

وقوله: (على أكثر من اثنتي عشرة أوقية) لم يذكر الكسر، وهو النَّشُّ، وأما ما روي من نكاح أم حبيبة بأربعة الآف درهم فكان من قبل النجاشي من ماله إكرامًا له -صلى اللَّه عليه وسلم-، وقد ورد أن امرأة قالت حين قاله عمر -رضي اللَّه عنه-: كيف ذلك وقد قال اللَّه تعالى: {وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا}؟ [النساء: 20] فقال عمر -رضي اللَّه عنه-: كلُّكم أعلمُ من عمر، فكان هذا تواضعًا منه -رضي اللَّه عنه-، وإلا فالكلام كان في الأفضل والأولى، لا في أصل الجواز، فلا يرِدُ ما قالت، وما ذكر في الآية مبالغة في عدم الأخذ."

(کتاب النکاح،ج6،ص85،ط؛دار النوادر)

فتاوی شامی میں ہے:

"والواجب بالعقد إنما هو مهر المثل، ولذا قالوا إنه الموجب الأصلي في باب النكاح وأما المسمى، فإنما قام مقامه للتراضي به..."

(کتاب النکاح،باب المہر،ج3،ص100،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102465

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں