بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی والوں کو زیادہ ایڈوانس دے کر پہلے شخص کا معاہدہ ختم کراکے خود خرید وفروخت کا معاہدہ کرنا


سوال

 آج کل کا روباری دنیا میں جو  کباڑ  یا کسی بھی ایسی چیز کا کام کرتے ہیں  جس کہ لیے انہیں مال بڑی کمپنیوں یا گوداموں سے اٹھانا پڑتا ہے، اس کے لیے وہ لوگ جس کمپنی و غیر ہ سے مال اٹھاتے ہیں اس کمپنی میں کچھ ایڈوانس جمع کرتے ہیں اور ایسا ریٹ طے کرتے ہیں جس سے کچھ منافع حاصل ہو ۔ اب یہ سلسلہ چل رہا ہو تا ہے کہ ایک تیسرا آدمی آتا ہے اور پہلے والے سے زیادہ ایڈوانس اور ریٹ دے کر اپنی سیٹنگ کر لیتا ہے اور پہلے والے کا لین دین وہاں سے ختم ہو جاتا ہے۔اب مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ آیا اس دوسرے آدمی کا  درمیان میں آنا اور زیادہ ایڈوانس اور ریٹ دےکر اپنی سیٹنگ کرلینا شرعاً درست ہے یا نہیں ؟

 

برائے مہربانی شرعیت کی روشنی میں مفصل و مدلل جواب عنایت فرمائیں 

جواب

صورتِ مسئولہ میں کمپنی یا گودام سے کباڑ یا کسی بھی مال کے خریدنے  کا معاہدہ کرنے کے لیے  ان کے پاس ضمانت کے طور پر ایک  متعین رقم  ”سیکورٹی ڈپازٹ یا ایڈوانس“ کے نام سے رکھوانا؛ تاکہ  معاہدے کے مطابق خریدار کو بروقت مال مل سکے اور فروخت والے کو بھی اطمینان ہو کہ  اگر مال کے پیسے نہ ملیں  تو  مذکورہ رقم سے  اس کی وصولی آسان ہو،  جائز ہے، اور  معاہدے کے اختتام پر وہ رقم واپس کرنا ضروری ہوگا۔ کمپنی یا گودام والوں کا  معاہد ہ کے مطابق  طے شدہ مال ، معاہدہ ختم ہونے سے پہلے کسی  اور شخص کو فروخت کرنا  جائز نہیں ہے، یہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ 

اسی طرح  کسی  شخص  کا مذکورہ کمپنی یا گودام والوں  کو زیادہ ایڈوانس  دے کر  پہلے شخص سے خرید وفروخت کا معاہدہ ختم کروانا اور خود ان سے معاہدہ کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ حدیث مبارک میں  اس سے منع فرمایا گیا ہے کہ کوئی آدمی دوسرے آدمی کے بھاؤ  (دام) پر بھاؤ لگائے یا دوسرے کے سودے پر سودا کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و) كره (النجش) بفتحتين ويسكن: أن يزيد ولا يريد الشراء أو يمدحه بما ليس فيه ليروجه ويجري في النكاح وغيره. ثم النهي محمول على ما (إذا كانت السلعة بلغت قيمتها، أما إذا لم تبلغ لا) يكره لانتفاء الخداع عناية (والسوم على سوم غيره) ولو ذميا أو مستأمنا،  وذكر الأخ في الحديث ليس قيدا بل لزيادة التنفير نهر، وهذا (بعد الاتفاق على مبلغ الثمن).

(قوله والسوم على سوم غيره) وكذا البيع على بيع غيره. ففي الصحيحين «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن تلقي الركبان» إلى أن قال «وأن يستام الرجل على سوم أخيه» وفي الصحيحين أيضا «لا يبع الرجل على بيع أخيه، ولا يخطب على خطبة أخيه إلا أن يأذن له» .وصورة السوم أن يتراضيا بثمن ويقع الركون به فيجيء آخر فيدفع للمالك أكثر أو مثله. وصورة البيع أن يتراضيا على ثمن سلعة فيقول آخر أنا أبيعك مثلها بأنقص من هذا الثمن أفاده في الفتح قال الخير الرملي: ويدخل في السوم الإجارة، إذ هي بيع المنافع (قوله بل لزيادة التنفير) ؛ لأن السوم على السوم يوجب إيحاشا وإضرارا، وهو في حق الأخ أشد منعا. قال في النهر كقوله في الغيبة: «ذكرك أخاك بما يكره» ، إذ لا خفاء في منع غيبة الذمي."

(5 / 101، كتاب البيوع، باب بيع الفاسد، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100820

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں