بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ظہار کے لیے الفاظ تشبیہ کاحکم


سوال

اگر کوئی  انسان نیند میں ہو اور بیوی اسے بوسا دے اور اس شخص کو لگے کے بوسا اس کی ماں نے دیا ہے لیکن پھر پتا چل جائے کے  بیوی تھی تو کیا کچھ ہوا؟ اسی طرح  انسان ظہار کے بارے میں سوچ رہا تھا بیوی کے ساتھ لیٹے تھوڑی دیر بعد خود بہ خود اس کے منہ سے ’’میری باجی‘‘ کے الفاظ نکلے جب بیوی کو گلے لگایا یا بوسا دینے لگا  منہ کے اندر ہی اندر ، اس سے کوئی نیت یا ارادہ نہیں  تھا بیوی کو حرام کرنے کا  بلکہ بیوی کے ساتھ لیٹے لیٹے اچانک منہ کے اندر ہی اندر یہ الفاظ کہے،  ہو سکتا ہے کے ظہار کے بارے میں سوچنے کی وجہ سے زبان پر آگئے ہوں، لیکن کوئی  نیت یا ارادہ نہیں تھا بیوی کو حرام کرنے کا،  اسی طرح بیوی کے ساتھ غلط یا حرام حرکت کی  اب اسے وہ غلط حرکت کا خیال ذہن میں آیا اور اس نے منہ ہی منہ میں ’’حرام‘‘ کا لفظ دو تین بار بولا،  اس کی نیت بیوی کو حرام کرنے کی یا طلاق دینے کی نہیں تھی  بلکہ وہ حرام حرکت کا خیال آگیا تھاذہن میں،  کیا اس سے کچھ ہوا؟ اسی طرح کچھ غلط خیال آیا اس شخص نے فوراً لفظ ’’حرام‘‘  بولا اس خیال کو ہٹانے کے  لیے،  کیا اس سے نکاح پر کوئی فرق پڑا؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ  میں   بیوی نے بوسہ دیا   اور خیا ل یہ ہوا کہ  ماں نے بوسہ دیا ہے تو اس صورت میں نکاح پر  کوئی اثر  نہیں پڑے گا ۔

2۔اگر کوئی اپنی بیوی کو یہ کہے ’’میری باجی‘‘  تو اس پر  كوئي کفارہ لازم نہیں ہے؛ کیوں کہ ظہار  کے تحقق کے  لیے بیویکی تشبیہ محرماتِ  اَبدیّہ (ماں، بیٹی، بہن  وغیرہ) کے ساتھ   دیتے وقت حرفِ تشبیہ ذکر کرنا ضروری ہے اور یہاں تشبیہ   نہیں پائی جاتی، لہذا   ظہار کا کفارہ نہیں آئے گا۔ 

3۔اسی طرح کسی گناہ کے خیال آنے پر  اس کی حرمت پر یہ کہا کہ’’ حرام‘‘ تو اس سے طلاق واقع نہیں ہو گی ۔ 

نیز مذکورہ شخص کو طلاق  اور اس سے متعلقہ مسائل کے حوالے سے  وسوسوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

"و شرعاً: تشبيه المسلم زوجته أو ما يعبر به عنها أو جزءًا شائعاً منها بمحرمة عليه تأبيداً."

  (اللباب في شرح الکتاب، کتاب الظهار (3/ 67)، ط: المكتبة العلمية، بيروت )

"و لفظ يا أخية استعارة بلا شكّ و هي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليس ظهارًا حيث لم يبين فيه حكمًا سوى الكراهة، و النهي فعلم أنه لا بدّ في كونه ظهارًا من التصريح بأداة التشبيه شرعًا."

  (الفتاوی الشامية، کتاب الطلاق، باب الظہار (3/ 470)،ط: سعيد كراچی)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں