بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زیورات پر زکاۃ کا حکم


سوال

 کیا خواتین کے زیورات پر زکاۃ فرض ہے جو کہ  جیولری کی شکل میں ہوں، یا صرف زکاۃ اُس سونے یا چاندی پر ہے جو بسکٹ کی شکل میں ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ سونا  چاندی خواہ   زیوات کی شکل میں ہوں یا بسکٹ، گنی یا کسی اور شکل میں ہوں،  خواہ استعمال کے ہوں یا کسی اور مقصد  کے لیے ہوں بہر صورت اگر وہ نصاب (یعنی سونے کے زیورات ساڑھے سات تولے اور چاندی کے زیورات ساڑھے باون تولہ) کے برابر یا اس سے زیادہ ہوں تو ان پر زکاۃ  واجب ہوتی ہے۔

 البتہ  اگر سونا نصاب سے کم ہو اور   سونے کےعلاوہ نہ چاندی ہو اور  نہ ہی کچھ نقدی ہو نہ ہی مالِ تجارت ہو تو ایسی صورت میں بقدرِ نصاب سونا نہ ہونے کی وجہ سے  زکاۃ واجب نہ ہوگی۔  اور اگر مذکورہ (نصاب سے کم) سونے کے ساتھ کچھ نقدی، یا چاندی کی کچھ مقدار ہو یا مالِ تجارت ہو، تو اس صورت میں سونے  کی  کل مالیت معلوم کرکے نقدی (یا چاندی یا مال تجارت) کے   ساتھ شامل کرکے زکاۃ کا سال پورا ہونے پر کل کا ڈھائی فیصد بطورِ زکاۃ ادا کرنا  واجب ہوگا۔

الجوهرة النيرة - (1 / 475):

"(قوله: وفي تبر الذهب والفضة وحليهما والآنية منهما الزكاة) التبر القطعة التي أخرجت من المعدن وهو غير المضروب وقوله وحليهما قال الشافعي: كل حلي معد للباس المباح لاتجب فيه الزكاة لنا ما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام {رأى امرأتين تطوفان وعليهما سواران من ذهب، فقال: أتؤديان زكاتهما؟ قالتا: لا، قال: أتحبان أن يسوركما الله بسوارين من نار جهنم؟ فقالتا: لا قال: فأديا زكاتهما}، وأما اليواقيت واللآلئ والجواهر فلا زكاة فيها وإن كانت حليًا إلا أن تكون للتجارة".

الاختيار لتعليل المختار - (1 / 118):

"(وتجب في مضروبهما وتبرهما وحليهما وآنيتهما نوى التجارة أو لم ينو إذا كان ذلك نصابًا) قال الله تعالى: {والذين يكنزون الذهب والفضة ولاينفقونها}  [ التوبة : 34 ] الآية. علق الوجوب باسم الذهب والفضة وأنه موجود في جميع ما ذكرنا".

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (1 / 306):

"ويجب في تبرهما بالكسر وهو ما يكون غير مضروب من الفضة والذهب وقد يطلق على غيرهما من المعدنيات كالنحاس والحديد إلا أنه بالذهب أكثر اختصاصًا، و قيل: فيه حقيقة وفي غيره مجاز وحليهما سواء كان للنساء أو لا أو قدر الحاجة أو فوقها أو يمسكها للتجارة أو للنفقة أو للتجمل أو لم ينو شيئًا".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں