بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زیور بیٹی کے نام کردینے کے بعد اس کے استعمال، فروخت اور زکوۃ کا حکم


سوال

اگر  میں اپنے سونے کے زیورات میں سے کچھ حصہ اپنی بیٹی کے نام سے رکھ دوں  تو کیا اس کی زکوٰۃ دینا ہوگی ؟ اور وہ جیولری بیٹی اپنی شادی سے پہلے استعمال کرسکتی ہے؟ یا اگر میں  نے وہ  جیولری جو بیٹی کے لیے رکھی ہے،  ایک بار پہن لوں تو کیا حکم ہے؟ یا  اگر مجبوری میں بیچ دوں تو کیا  حکم ہے؟

جواب

 زکوٰۃ عاقل بالغ مسلمان شخص کے  اپنے مال میں لازم ہوتی ہے،  نابالغ بچہ/بچی یا غیرمسلم  کی ملکیت میں موجود مال کی زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی، لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر  آپ اپنے سونے کے زیور کا کچھ حصہ اپنی بیٹی کو گفٹ نہ کریں،  بلکہ صرف اس کے نام سے رکھیں  کہ بیٹی کی شادی کے موقع پر اس کو دیں گی تو اس صورت میں چوں کہ جب تک بیٹی کی شادی کے موقع پر اس کو زیور نہیں دیں گی، تب تک وہ زیور آپ کی ملکیت ہی میں شمار ہوگا، اس لیے آپ کے لیے اس کو استعمال کرنا اور فروخت کرنا جائز ہوگا، اور اس کی زکوٰۃ بھی آپ ہی پر لازم ہوگی۔

اور اگر آپ اپنے زیورات کا کچھ حصہ اپنی بیٹی کو گفٹ کردیں،  پھر دو صورتیں ہیں:

1۔۔ اگر بیٹی بالغہ ہے، تو اس گفٹ کے مکمل ہونے کے لیے  زیورات کا قبضہ اس کو دینا ضروری ہے، بیٹی کو قبضہ میں دینے کے بعد وہ  ان زیورات کی مالک ہوجائے گی، اب اس کی زکوٰۃ آپ پر لازم نہیں ہوگی، البتہ اگر بیٹی کے پاس وہ زیورات دیگر قابل زکوٰۃ اموال کے ساتھ مل کر  نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر ہوجاتے ہوں   تو بیٹی پر اس کی زکوٰۃ لازم ہوگی، نیز اس صورت میں آپ  یہ زیورات اپنی بیٹی کی اجازت سے استعمال  کرسکتی ہیں، اور بیٹی کی اجازت ہی سے فروخت بھی کرسکتی ہیں، بیٹی کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا یا فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر بیٹی کی ملکیت میں صرف سونے کے زیورات ہوں، اور بنیادی ضرورت سے زائد نقدی یا چاندی ملکیت میں نہ ہو تو جب تک سونے کے زیورات ساڑھے تولہ نہ ہوں، ان پر زکات نہیں ہوگی۔

2۔۔  اگر بیٹی نابالغہ ہے، چھوٹی ہے، تو اس صورت میں بیٹی کے ولی (یعنی اس کے والد ، والد نہ ہونے کی صورت میں اس کے  وصی، پھر دادا،اور  پھر اس کے وصی)  کا قبضہ ضروری ہوگا،  اگر بچی کے ولی نے اس زیور کو  بچی کی طرف سے  قبضہ میں لے لیا تو  اس سے وہ   زیورات اس کی ملکیت ہوجائیں گے،  اور اس صورت میں ان زیورات کی زکوٰۃ نہ آپ پر لازم ہوگی اور نہ ہی آپ کی نابالغ بیٹی پر لازم ہوگی۔نیز اس صورت میں آپ کے لیے اس کو استعمال کرنا یا فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

" الموهوب له إن كان من أهل القبض فحق القبض إليه، وإن كان الموهوب له صغيرا أو مجنونا فحق القبض إلى وليه، ووليه أبوه أو وصي أبيه ثم جده ثموصي وصيه ثم القاضي ومن نصبه القاضي، سواء كان الصغير في عيال واحد منهم أو لم يكن، كذا في شرح الطحاوي" .

(4/392، الباب السادس فی الھبۃ للصغیر، ط؛ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے؛

" (وهبة من له ولاية على الطفل في الجملة) وهو كل من يعوله فدخل الأخ والعم عند عدم الأب لو في عيالهم (تتم بالعقد) لو الموهوب معلوما وكان في يده أو يد مودعه، لأن قبض الولي ينوب عنه، والأصل أن كل عقد يتولاه الواحد يكتفى فيه بالإيجاب

(قوله: على الطفل) فلو بالغا يشترط قبضه، ولو في عياله تتارخانية (قوله: في الجملة) أي ولو لم يكن له تصرف في ماله (قوله: بالعقد) أي الإيجاب فقط كما يشير إليه الشارح كذا في الهامش، وهذا إذا أعلمه أو أشهد عليه، والإشهاد للتحرز عن الجحود بعد موته والإعلام لازم لأنه بمنزلة القبض بزازية"

(5/694،کتاب الھبۃ، ط ؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں