بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاؤں میں بچھوے(زیور) پہننا


سوال

 عورت کو پیر کی انگلیوں میں بچھوے پہننا کیسا ہے؟

جواب

عورتوں کو چوں کہ  قدرتی اور فطری طور پر زینت کی ضرورت ہے اس لیے  شریعت نے  عورت کے لیے  سونےاور  چاندی کے ہر قسم کے زیورات پہننے کی اجازت دی ہے، البتہ سونےاور  چاندی کے وہ زیورات جو  کسی غیر محرم پر واضح ہوتے ہوں ،یا چلنے سے ان زیورات میں جھنکار  پیدا ہوتی ہو  ،فتنہ کا اندیشہ ہو تو ایسے زیورات پہننا جائز نہیں ہے ۔

لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ بچھوے جو پاؤں کی انگلیوں میں پہنے جاتے ہیں اگر ان کی بناوٹ  اس طرح ہے کہ ان کے پہننے سے جھنکار نہ ہو ،اور غیر محرموں پر واضح نہ ہوتے ہوں اور فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو عورت کے لیے یہ پہننا جائز ہے ۔

"وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ."﴿النور: ٣١﴾

ترجمہ:

’’اورنہ ماریں زمین پراپنے پاؤں کوکہ جاناجائے جوچھپاتی ہیں اپناسنگھار۔‘‘(تفسیرعثمانی)

مشکوۃ میں ہے:

"وعن بنانة مولاة عبد الرحمن بن حيان الأنصاري كانت عند عائشة إذ دخلت عليها بجارية وعليها جلاجل يصوتن فقالت: لا تدخلنها علي إلا أن تقطعن جلاجلها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا تدخل الملائكة بيتا فيه أجراس."

(کتاب اللباس ،ج:2،ص:1256،ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک چھوٹی لڑکی لائی گئی،جوگھنگروپہنے ہوئےتھی اوروہ بج رہے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اس لڑکی کولانے والی عورت سے فرمایا)اس لڑکی کومیرے پاس اس وقت تک نہ لایاجائے جب تک کہ ان گھنگرؤں کوکاٹ کرپھینک نہ دیاجائے،کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے کہ اس گھرمیں (رحمت کے)فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں باجے کی قسم کی کوئی چیزہوتی ہے۔‘‘

(مشکوۃ،مظاہرحق،کتاب اللباس،4/189،ط:دارلاشاعت)

مفتی کفایت اللہ ؒ لکھتے ہیں:

’’حاصل یہ کہ کان میں ہاتھوں میں پاؤں میں گلے میں زیورپہنناشرعاًجائزہے اورعورتوں کوچونکہ قدرتی اورفطری طورپرزینت کی ضرورت ہے اس لئے شریعت نے ان کے لئے چاندی سونے کے زیورکی بھی اجازت دی ہے...زینت سے زینت دینے والی پوشیدہ چیزیں مرادہیں،جیسے پاؤں میں خلخال(پازیب)اورمیندھی کارنگ اورہاتھ میں کنگن اورکان میں بالیاں اورگلے میں .ہارکہ عورت کوان چیزوں کانامحرم پرظاہرکرناجائزنہیں‘‘۔

(کفایت المفتی، ج:9،ص:182،ط:دارالاشاعت )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100879

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں