بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زیرِ تعمیر بلڈنگ میں فلیٹ بک کروانا، نیز اس کی فلیٹ کو آگے فروخت کرنا


سوال

1۔میں نے ایک فلیٹ بک کروایا ،  جس کی بلڈنگ ابھی زیرِ تعمیر تھی ، نویں منزل  پر فلیٹ بک کروایا ، جس کی  کل قیمت  92  لاکھ روپے  ہے، جس میں ادائیگی پچاس لاکھ کی، اورپندرہ لاکھ  روپے قسطوں میں ادا کیے  جب کہ ستائیس لاکھ روپے ابھی باقی ہیں، بلڈر نے ایک  رسید  دی جس میں اوپر دی گئی تفصیل درج ہے، اب   پوچھنا  یہ ہے کہ مذکورہ  رقم کی ادائیگی کے بعد اس فلیٹ کی ملکیت میری ہوگی یا نہیں ؟جب کہ ابھی تک نویں منزل کا بالکل وجود ہی نہیں ہے، لیکن      تعمیرکرکےدینا یہ بلڈر کی ذمہ داری ہے، بلڈر  کی دی گئی رسید کے مطابق اس نویں  منزل پر وہ کسی  قسم کا حق حاصل نہیں رکھتا،یعنی خریدو فروخت کے حوالے سے  ۔

2۔اگر میں یہ  رسید   کسی دوسرے فرد کو بیچتاہو ں  توشرعا کیا حکم ہے؟ جب کہ دسرے فر د کو اس تمام نوعیت کا علم ہے،آج کل اس طرح کا رواج ہے۔

3۔اگر میں 92 لاکھ سے زائد پر  فروخت کروں توشرعا  اس زائد رقم کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہےکہ  جس فلیٹ یا گھر کاوجود نہ ہو محض نقشہ بناہو ایسے فلیٹ یا گھر  کی بیع (خرید و فروخت) شے معدوم ہونے کی بنا پر  درست نہیں ہے۔البتہ بلڈر یا اس کا مالک یہ کرسکتا ہے کہ فلیٹ بننے سے پہلے فلیٹ کی خریدوفروخت کی بجائے بیع کا وعدہ  کرلے، اوروعدۂ بیع کی صورت میں باہمی رضامندی سے طے شدہ رقم ایڈوانس کے طورپراداکی جائےاورجب فلیٹ کی عمارت وجودمیں آجائے (یعنی کم از کم اسٹرکچر کھڑا ہوجائے) پھر مکمل طورپرخریدوفروخت کی بات کردی جائے، نیز جب فلیٹ کا ڈھانچا وجود میں آجائے تو اسے آگے فروخت کرنا بھی جائز ہوگا۔لیکن جس نے بلڈر سے وعدہ کیا ہے  وہ آگے اس وقت تک فروخت نہیں کرسکتا جب تک  کہ اس فلیٹ کا اسڑکچر نہ بن جائے۔

2۔صرف رسید وصول کرنے سے  مذکورہ بلڈنگ کے غیر تعمیر شدہ  فلیٹ کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی، لہذا فلیٹ کی  رسید آگےنفع کے ساتھ  فروخت کرنا شرعا جائز نہیں۔

3۔چوں کہ سائل کےلیے مذکورہ فلیٹ یا رسیدکو منافع رکھ کر  آگے  فروخت کرنا ناجائز ہےاس لیے صرف اتنی رقم لے کر  حوالہ کرسکتا ہے جتنی رقم اس نے اب تک جمع کرائی ہے ،اس سے زائد لینا شرعا جائزنہیں ہے، لہذا اگر سائل جمع کردہ رقم سے زائد پر اس رسید کو آگے فروخت کرے گاتو اس کے ذمے لازم ہوگا کہ یہ معاملہ ختم کرے  اورخریدنے والے سے اپنی رسید وصول کرکے اس کو ساری رقم واپس کردے، ورنہ کم ازکم اس کی زائد رقم واپس کردے ، اس زائد رقم کا استعمال سائل کےلیے جائز نہیں ہوگا۔

مشکات شریف میں حدیث ہے:

"وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " لا يحل سلف وبيع ولا شرطان في بيع ولا ربح ما لم يضمن ولا بيع ما ليس عندك "

(كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع :2/ 146،ط:المكتب الاسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو بعده على وجه الميعاد جاز لزم الوفاء به؛ لأنّ المواعيد قد تكون لازمةً لحاجة الناس، وهو الصحيح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 277)

وفيه ايضا:

"وفي جامع الفصولين أيضًا: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمةً فيجعل لازمًا لحاجة الناس تبايعا بلا ذكر شرط الوفاء ثم شرطاه يكون بيع الوفاء؛ إذ الشرط اللاحق يلتحق بأصل العقد عند أبي حنيفة، ثم رمز أنه يلتحق عنده لا عندهما، وأن الصحيح أنه لايشترط لالتحاقه مجلس العقد. اهـوبه أفتى في الخيرية وقال: فقد صرح علماؤنا بأنهما لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العدة جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 84)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں