بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زیرتعمیر پلازہ میں دکان بک کراکر بننے اور قبضہ ملنے تک بلڈر سے نفع لینا


سوال

ایک کمپنی ہے  جو کہ تعمیراتی کام کرتی ہے، پلازہ اور باقی چیزیں بنانااس كا كام هے،  ہم اس کمپنی میں ایک بھاری رقم انویسٹ کرنا چاہتے ہیں اور اس کمپنی کی policies کچھ اس طرح ہیں: تین سال کا پلان ہے ایک بلڈنگ کے بننے میں، جس میں ہم نے 50 لاکھ انویسٹ کیا ہے ایک شاپ خریدنے کے لیے، جس کی ایک مخصوص رقم ہمیں ہر ماہ پرافٹ کے طور پر دی جائے گی (پوری رقم انویسٹ کرنے کے ایک ماہ بعد سے اگلے تین سال تک)، تین سال مکمل ہونے کے بعد کمپنی ہمیں اس رقم  کی appreciation اور جو رقم ہم نے انویسٹ کی تھی وہ بھی تین سال بعد واپس کر سکتے ہیں اگر ہم لینا چاہیں،  اس دورانیہ کے گزرنے کے بعد اس پلازے میں ایک زمین/دکان ہمارے حوالے کر دی جائے گی (اس دکان یا جگہ میں اور حصہ دار بھی ہوں گے کیونکہ دکان بڑی ہے اس لیے اس میں باقی فریق بھی ہو ں گے، ہمیں زمین کا ایک خاص حصہ دیا جائے گا  قبضے میں)۔ کمپنی کی پالیسی کے مطابق یا تو ہمیں خود وہ جگہ چلانے پڑے گی یا پھر اس کمپنی کے حوالے کرنی پڑے گی اور وہ ہمیں ہر ماہ ایک فکس رقم کرائے کے طور پر دے گی۔

جواب

واضح رہے کہ جس  پلاٹ پر ابھی تک تعمیر نہ ہوئی ہو، اُس کی دکانیں یا مکانات جو صرف نقشے کی حد تک موجود ہوں، اُس کا باقاعدہ سودا کرنا درست نہیں ہوتا؛ کیوں کہ جو چیز ملکیت میں نہ ہو  اور معدوم ہو  اس کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، جواز  کی دو صورتیں ہیں:

(1) جو مکان یا دکان لوگوں کو فروخت کی جارہی ہو   اس کا کچھ نہ کچھ اسٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچا  بن چکا ہو، ایسی صورت میں اُس کا سودا کیا جاسکتا ہے۔

(2)  جس دکان یا مکان کا ڈھانچہ بھی نہ بنا ہو مثلاً ابھی ایک منزل بھی نہیں بنی اور تیسری منزل کی دکانیں یا مکانات بیچی جا رہی ہوں تو یہ سودا جائز نہیں ہے، اس صورت میں وعدۂ بیع  (خریداری کا وعدہ)  کیا جاسکتا ہے،  یعنی صرف بکنگ کی جاسکتی ہے   کہ  مثلاً    فلاں مکان فلاں کو  فروخت کیا جائے گا، اور اس بکنگ کی مد میں ایڈوانس رقم بھی لینا جائز ہو گا۔

نیز بکنگ کے بعد دکان بننے اور  حوالے کیے جانے تک بکنگ کرانے والے کو ہر ماہ نفع (پرافٹ)  دینا اور آخر میں دی گئی رقم کیappreciation دیناجائز نہیں ہے، سود ہے، اس کا لینا دینا حرام ہے ۔اسی طرح شروع میں معاہدہ کرتے وقت یہ شرط عائد کرنا کہ تعمیر مکمل ہونے کے بعد انویسٹر اپنی رقم واپس لینا چاہے تو لے سکتا ہے، اور یہ شرط عائد کرناکہ   دکان خود نہ چلانے کی صورت میں کمپنی کو دکان حوالہ کرنی پڑے گی، اگر یہ شرط کے طور پر شامل ہو تو یہ  معاملہ  فاسد ہوجائےگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں چونکہ مذکورہ کمپنی کی مذکورہ پالیسیاں شرعی اعتبار سے درست نہیں اس لیے اس پالیسی کے مطابق  اس  میں سرمایہ کاری (انویسٹ) کرنا جائز نہیں ہے، البتہ یہ صورت ہوسکتی ہے کہ رقم دےکر  اس پروجیکٹ میں شامل ہوجائے اور دکان وغیرہ فروخت کرنے کے بعد اپنی رقم کے تناسب سے نفع میں شریک ہوجائے تو یہ جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لاينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحاً. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعاً بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى."

(4/ 516، كتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطى،  ط: سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

(كتاب القرض، فصل: القرض وأما الشرائط فأنواع، 7/ 395، ط: دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100997

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں