بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زیرناف بال نہ کاٹنے والے کی نماز کا حکم


سوال

 اگر  کوئی  شخص  چالیس  روز   کے بعد  بھی  موئے زیر ناف یا بغل صاف نہ  کرے تو اس کایہ عمل مکروہِ  تحریمی ہوگا یہ بات تو طے  شدہ  ہے، اب  معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس کی نماز بھی مکروہ ہوگی؟ بعض حضرات مکروہ  قرار دیتے ہیں اور  بطور  دلیل  شامی  کی یہ عبارت پیش فرماتے ہیں: "وكرہ تركه أي تحریمًا لقول المجتبی."(شامی:ج/۹،صرف/۵۸۳،ط: بیروت)  حال آں کہ اس عبارت میں علامہ شامی علیہ الرحمہ نے اس فعل کو مکروہ  قرار دیاہےجو چالیس دن سے  زائد کافعل ہے نہ کہ نماز کو، آپ شریعتِ  مطہرہ  کی روشنی میں وضاحت فرمادیں کہ راجح قول کیا ہے؟  اگر مکروہ ہے تو مکروہ ہونے کی وجہ کیاہے؟ نیز یہ بھی بتلادیں کہ اگرمکروہ ہے تو تنزیہی ہے یا تحریمی؟

جواب

سوال  میں  ذکر  کردہ  علامہ  شامی رحمہ اللہ  کی  پوری عبارت  اس طرح ہے:

’’(و) يستحب (حلق عانته وتنظيف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة) والأفضل يوم الجمعة وجاز في كل خمسة عشرة وكره تركه وراء الأربعين...(قوله:وكره تركه) أي تحريمًا لقول المجتبى: ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد.‘‘

مذکورہ عبارت میں    زیر ناف بال کاٹنے اور غسل بدن کا ذکر ہے، اور دونوں کو چالیس دن سے مؤخر کرنے والے کو  مستحق وعید شمار کیا ہے،صحیح مسلم اور  جامع  ترمذی کی روایت میں ان دونوں کے ساتھ  مونچھوں ، ناخن کاٹنے کو  بھی شمار کیا ہے، لیکن حدیث یا فقہ کی کسی کتاب میں ان چیزوں کے ساتھ نماز کی کراہت  ( تنزیہًا یا تحریمًا) کا ذکر موجود نہیں ہے۔

 صحیح مسلم میں ہے:

’’عن أنس بن مالك قال: قال أنس: وقت لنا في قصّ الشارب و تقليم الأظفار و نتف الإبط و حلق العانة أن لانترك أكثر من أربعين ليلةً.‘‘

(باب خصال الفطرۃ/ج:1/ص:153/ط:دارالمعرفہ)

سنن ترمذی میں ہے:

’’عن أنس بن مالك قال : وقت لنا رسول الله صلى الله عليه و سلم عليه وسلم قص الشارب وتقليم الأظفار وحلق العانة ونتف الإبط لايترك أكثر من أربعين يومًا.‘‘

(باب فی التوقیت فی الاظافر.../ج:5/ص:95/ط:داراحیاء التراث)

فتاوی شامی میں ہے:

’’قال في القنية: الأفضل أن يقلم أظفاره ويقص شاربه ويحلق عانته وينظف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع وإلا ففي كل خمسة عشر يوما ولا عذر في تركه وراء الأربعين ويستحق الوعيد فالأول أفضل والثاني الأوسط والأربعون الأبعد.‘‘

(باب الکسوف /ج:2/ص:181/ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں