بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ


سوال

 احقر اپنی صحرائی اور سکنائی  جائیداد اپنے وارثین کے مابین تقسیم کرنا چاہتا ہے،صحرائی زمین 27 بیگہ ہےاور سکنائی  زمین ایک بیگہ 2 ڈسمل ،سکنائی  زمین دو جگہ بڑی جگہ میں دو کمرے ،ایک اسٹور ،، ایک باورچی خانہ، ایک غسل خانہ، ایک نل اوردو بیت الخلاءہیں، یہ جگہ آدھی تعمیر شدہ ہے اور آدھی خالی ہے دوسری جگہ گھیر کے نام سے مشہور ہے، سات ڈسمل ہے ،اس میں تین کمرے ،ایک دکان ،ایک باورچی خانہ،اور ایک سمرسیبل پمپ پانی ،مزید احقر مقروض بھی ہے ،کس طرح سے قرض ادا کیا جائے؟ وارثین میں ایک بیوی، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ، لہذا مذکورہ جائیدادکو قرآن وحدیث کی روشنی میں کس طرح تقسیم کروں؟

نوٹ تین بچے بہت زیادہ کمزور ہیں جتنا میں بتاتا ہوں اتنا ہی کام کرتے ہیں بڑی بیٹی الحمداللہ ٹھیک ہے ۔

مکمل رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل جب تک  زندہ ہے وہ اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیدادِ منقولہ وغیرِ منقولہ کا تنِ تنہاخودمالک ہے، اولاد وغیرہ میں سے کسی کا کوئی حق وحصہ نہیں اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہے،البتہ سائل اگر  اپنی خوشی ومرضی سے اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائیداد تقسیم کرناچاہے تو کرسکتاہےاور اس کا طریقہ یہ کہ سائل اپنے لیے جتناچاہے رکھ لے،تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئےاورجتناقرض ہے اس کے بقدرمنہاکرلے اور کل مال کے آٹھویں حصہ کے بقدر اپنی بیوی کودیدےاس کے بعد  باقی جائیداد کو اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرے، لیکن زندگی میں جائیداد کی تقسیم کرنا شرعاًچونکہ ہبہ (گفٹ) کہلاتاہے، اور ہبہ(گفٹ) میں تمام اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں ) کے درمیان برابری ضروری ہے، یعنی جتنا حصہ ہر ایک بیٹے کو دے ، اتنا ہی ہر بیٹی کو دینا ضروری ہے، بلا وجہ کسی بیٹے یابیٹی کو کم یازیادہ دینایاکسی کو محروم کرناشرعاً جائز نہیں ہے،ورنہ تقسیم غیرمنصفانہ کہلائی گی اورسائل گناہ گارہوگا،لبتہ اگر کوئی بیٹا یابیٹی زیادہ خدمت گزارہےاسی طرح کسی بیٹے یابیٹی کو اس کی کثرتِ شرافت ودینداری کے یاغریب ہونے کی بناءپریاکمزورہونے کی بناءپر بنسبت اوروں کے کچھ زیادہ دیناچاہےتودے سکتاہے ، نیز تقسیم کرکےبیوی ،ہر ایک بیٹے اور بیٹی کو ان کے حصےمتعین کرنے کے ساتھ اس  پر مکمل مالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ دینا بھی ضروری ہے، محض نام کرنا کا فی نہیں ہے، بصورتِ دیگر ہبہ(گفٹ) شرعاً تام اورمکمل  نہیں ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(الباب السادس في الهبة للصغير) . ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى."

(کتاب الہبہ،الباب السادس فی الہبة للصغير،ج:4،ص:391،ط:المطبعۃ الكبرى الأميريۃ)

بدائع الصنائع ميں ہے:

"فنقول ‌للمالك ‌أن ‌يتصرف في ملكه أي تصرف شاء سواء كان تصرفا يتعدى ضرره إلى غيره أو لا يتعدى."

(کتاب الدعوی،ج:6،ص:264،ط:دارالکتب العلمیہ)

الدرالمختار میں ہے:

"و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح۔۔۔بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة."

وفی الردتحتہ:

"(وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر:قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك،لا يكون هبة؛ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني،يكون هبة،وإن قال: باسم ابني،لا يكون هبة."

(کتاب الہبۃ،ج:5،ص:688/ 689،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101509

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں