بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں انسان اپنی تمام جائیداد کا خود مالک ہوتا ہے


سوال

اگر والد اپنی زندگی میں اپنی دولت وجائیداد اپنے کسی ایک بیٹی یا بیٹے کے نام کر دیتا ہے تو کیا والد کی وفات کے بعد اس میں دوسرے بہن بھائیوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز والدین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا،  تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے،

یعنی: جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو بھی دے، نہ بلاوجہ کمی پیشی کرے اور نہ ہی کسی کو محروم کرے، اگر کسی کو محروم کرے گا، یا بلاوجہ کمی پیشی کرے گا تو یہ تقسیم غیر منصفانہ کہلائے گی  ، آخرت میں پکڑ ہو سکتی ہے ۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے درمیان ہبہ  میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه». وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»". 

(مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ بالا تمہید سے یہ بات واضح ہو گئی کہ والد کا اپنی جائیداد کسی ایک بیٹے کو دینا اور دیگر کو محروم کرنا غیر منصفانہ  طریقہ ہے، اس پر آخرت میں مواخذہ کا اندیشہ ہے، باقی اگرسائل کا والد   اپنی  تمام  جائیداد اپنی زندگی میں  کسی ایک بیٹے کے نام کرنے کے ساتھ مکمل طورپر مکان کو خالی کر کے (بایں طور کہ والد اس مکان میں رہائش پذیر نہ ہو)  اس کو  قبضہ  بھی  دے  دیا ہے تو ایسی صورت میں مذکورہ جائیداد اسی (بیٹے یا بیٹی جس کو دی گئی  ہے) کی ملکیت شمارہوگی،  اس صورت میں مذکورہ جائیداد میں کسی اور بہن بھائی کاشرعی حصہ نہیں ہوگا۔

اوراگرسائل کاوالد  اپنی  مذکورہ جائیداد  اپنی اولاد میں سے کسی (ایک بیٹے، یا بیٹی) کے  صرف نام کرتا ہے اپنا قبضہ وتصرف خالی کر کےاسے قبضہ  دے کرمکمل طورپرحوالے نہیں کرتا بلکہ عملاً اپنے قبضہ وتصرف میں ہے تو ایسی صورت میں  جس کے نام کی گئی ہے تو وہ  اس کا شرعاً مالک شمار نہیں ہو گا اور جائیداد والد کی ملکیت شمار ہو گی اور انتقال کے بعد والد کا ترکہ شمار ہو گی اور مرحوم کے اس وقت موجود ورثاء میں ان کے شرعی حصوں میں تقسیم کی جائےگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو وهب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار  ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ." 

(كتاب الهبة ، الباب السادس فى الهبة للصغير، ج:4، ص:391، ط: مكتبه رشيديه) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں