بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زیر ناف اور بغل کے بال کاٹنے کی حد اور وقت


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی کو کس عمر سے زیر ناف اور بغل کے بالوں کی صفائی شروع کرنی چاہئے اور اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ اگر بلوغ سے پہلے ہی یہ بال نکل آئیں تو صفائی کر سکتے ہیں؟

جواب

بغل اور زیر ناف بال عام طور سے بلوغت کے وقت یا بلوغت کے قریب ہی آتے ہیں، اس لیےاگر بلوغت سے پہلے یہ بال آئیں اس وقت ہی سے ان کا کاٹنا  بہتر ہوگا،لہٰذا زیر ناف بال چاہے بلوغت سے پہلے ہی  آجائیں تب بھی ان کا کاٹنابہتر ہے البتہ بالغ ہونے سے پہلے اس پر کاٹنا  لازم نہیں ہوگا کیوں کہ یہ شریعت کے مکلف نہیں ۔

جبکہ بلوغت کے بعد بندہ احکام شرع کا مکلف ہوتا ہے،زیرِناف  بال اور بغل کے بال صاف کرنا سنت اور امورِ فطرت میں  سے ہے، ہفتہ میں ایک مرتبہ صفائی کرنا مستحب اور خاص جمعہ کے دن اس کا اہتمام کرنا باعثِ فضیلت ہے، پندرہ دن کی تاخیر سے کرنا بھی جائز ہے، لیکن  چالیس دن سے زائد چھوڑے رکھنا مکروہِ تحریمی ہے، جو شخص اِن بالوں کو چالیس دن کے اندر  صاف نہیں کرے گا  وہ گناہ گار ہوگا۔

       زیرِ ناف بال کاٹنے کی حد یہ ہے کہ اگر آدمی اکڑو  بیٹھے  تو ناف سے تھوڑا نیچے، جہاں پیٹ میں بل پڑتا ہے وہاں سے  رانوں کی جڑوں تک اگنے والے بال، مخصوص عضو (آلہ تناسل) اور اس کے ارد گرد کے حصے كے بال، اور خصیتین کے بال اور پاخانے کے خارج ہونے کی جگہ اور اس کے ارد گرد کے بال زیرِ ناف بالوں میں داخل ہیں، لہذا ان سب بالوں کا کاٹنا ضروری ہے۔مرد   کے حق میں  زیرِ ناف بال کاٹنے  کے لیے بلیڈ  یا استرے کا استعمال  بہتر ہے؛ کیوں کہ اس سے بال جڑ   سے ختم ہوجاتے  ہیں اور  طبی اعتبار سے بھی یہی بہترہے اور عورتوں کے لیے  بالوں کو اچکنا یا پاؤڈر  یا کریم کا استعمال بہتر ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : خمس من الفطرة : الختان ، والاستحداد ، وتقليم الأظفار ، ونتف الإبط ، وقص الشارب.

(باب في الفطرة، ما يعد فيها (2/ 292) برقم (2059)،ط: شركة دار القبلة)

عمدۃ القاری میں ہے:

"أراد بالفطرة السنة القديمة التي اختارها الأنبياء عليهم السلام واتفقت عليها الشرائع فكأنها أمر جلى فطروا عليه".

(كتاب اللباس، باب قص الشارب (22/ 45)،ط. دار إحياء التراث العربي – بيروت)

بذل المجہود شرح سنن ابی داود میں ہے:

"(والاستحداد) وهو حلق العانة، وهو متفق على أنه سنَّة".

(باب في أخذالشارب، (12/ 223)، ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: وقت لنا في قص الشارب وحلق العانة ونتف الإبط، وتقليم الأظفار: أن لا تترك أكثر من أربعين ليلةً".

(باب الفطرة (1/ 197) برقم (295)،ط. دار الرسالة العالمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"والعانة: الشعر القريب من فرج الرجل والمرأة، ومثلها شعر الدبر، بل هو أولى بالإزالة ؛ لئلا يتعلق به شيء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر". 

(کتاب الحج، فصل في الإحرام و صفة المفرد (2 /481) ط: سعید) 

وفیه أيضًا:

"قال في القنية: الأفضل أن يقلم أظفاره ويقص شاربه ويحلق عانته وينظف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع وإلا ففي كل خمسة عشر يومًا ولا عذر في تركه وراء الأربعين ويستحق الوعيد فالأول أفضل والثاني الأوسط والأربعون الأبعد آهـ ."

(كتاب الصلاة، باب العيدين، مطلب في إزالة الشعر والظفر في عشر ذي الحجة (2/ 181)،ط. سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں