بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ذی الحجہ کے ایام میں سر کے بال کے علاوہ جسم کے باقی زائد بال کاٹنے کا حکم


سوال

کیا عورتیں سر کے بال اور ناخنوں کے علاوہ جسم کے کسی بھی حصے یعنی ہونٹوں کے اوپر، بغلوں، ٹانگوں اور شرم گاہ کے بال قربانی سے چند دن پہلے جسم سے اتار سکتی ہیں یا اس کی ممانعت ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ  ذی الحجہ کا چاند نظر آجانے کے بعد سے لے کر قربانی کرنے تک  جسم کےکسی بھی حصے کے بال یا ناخن وغیرہ  نہ کاٹنا ان افراد کے لیے مستحب ہے جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، یہ حکم فرض یا واجب نہیں، پس اگر کسی نے اس دنوں میں بال یا ناخن کاٹ لیے تو یہ ممنوع نہیں ہے۔ تاہم بال اور ناخن نہ کاٹنے کے اس استحبابی حکم میں سر کے بالوں کی طرح پورے جسم کے کسی بھی حصے کے بال اور جسم کے کسی بھی حصے کی کھال وغیرہ بھی داخل ہے۔

  نیز وہ افراد جنہیں اپنے غیر ضروری بال یا ناخن کاٹے چالیس دن کی مدت ہو گئی ہو یا ان دنوں میں ہو رہی ہو یا چالیس دن کی مدت تو نہ ہو، لیکن اتنے بڑے ہوگئے ہوں کہ حرج محسوس ہو یا نظافت و طہارت میں خلل ہو تو ان کے لیے مذکورہ حکم نہیں ہے، لہٰذا انہیں ان دنوں میں بال، ناخن کاٹنے چاہییں۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبةً للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه، ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداءً كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ؛ لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص.

(کتاب الاضحیة،ج:3،ص:1081،ط:مکتبه امدادیه)

العرف الشذی میں ہے:

'و مسألة حديث الباب مستحبة،  و الغرض التشاكل بالحجاج . 

(ج:1،ص:278،ط:ایچ ایم سعید)

مرقاۃ المفاتیح  میں ہے:

عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: أمرت بيوم الاضحي عيداً جعله الله لهذه الأمة، قال له رجل: يا رسول الله! أرأيت ان لم أجد إلا منيحة أنثى أفأضحي بها؟ قال: لا! ولكن خذ من شعرك و أظفارك و تقص شاربك و تحلق عانتك، فذلك تمام أضحيتك عند الله. رواه أبو داؤد و النسائي.

(كتاب الأضحية، ٣/ ٣١٦، ط: امدادية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں