بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ذہنی معذور لڑکی کو کسی ادارے میں داخل کرنا


سوال

محترم جناب مفتی صاحب میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ایک بیٹے اور ایک بڑی بیٹی کی شادی کر دی ہے اور دونوں خوش و خرم اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ ایک سب سے چھوٹی بیٹی کنواری ہے اور ایک بیٹی جو کہ میری سب سے بڑی بیٹی سے ایک سال چھوٹی ہے بچپن ہی سے نہایت ضدی، غصیلی اور لا ابالی طبیعت کی مالک ہے۔ بچپن سے ہم اس کی تمام غلطیاں اور ضد بچی سمجھ کر نظرانداز کرتے رہے مگر جب سے اس نے جوانی میں قدم رکھا ہے، اس کی غصہ اور ضد کرنے کی عادت ختم ہونے کی بجائے اور زیادہ بڑھ گئی بلاوجہ کسی کو مارنے لگنا کبھی کسی پر اینٹ سے حملہ کرنا اور کبھی کسی نوک دار چیز سے مارنا جس کی وجہ سے تمام گھر والے اس سے نہایت پریشان رہنے لگے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہر سال موسم سرما میں اس بچی پر ایک دورہ پڑتا ہے جس سے یہ اور زیادہ غصہ کرنے لگتی ہے اور ہر کسی کو مارنے لگتی ہے اور اس دوران گھر سے بھاگتی ہے جس وجہ سے اس کو زنجیروں سے باندھ کر بھی رکھنا پڑتا ہے۔ مگر کئی بار ایسا ہوا کہ یہ چکمہ دے کر گھر سے فرار ہونے میں کامیاب بھی ہو گئی مگر ہم اس کو کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ کر گھر لے آئے۔ ہم نے اپنی طرف سے ہر طرح کا روحانی اور طبی علاج بھی کروایا مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ بچی نے متعدد بار اپنی شادی کی خواہش کا بھی اظہار کیا تو ہم نے یہ سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ سارا غصہ اور ضد شادی کی وجہ سے ہو تو ہم نے ایک رشتہ ڈھونڈ کر وہاں اس کی شادی کروا دی مگر شادی کو بمشکل ایک ہفتہ ہی ہوا ہے کہ بچی کے سسرال سے بھی شکایات ملنا شروع ہو گئی ہیں کہ یہ وہاں بھی ٹھیک سے نہیں رہ رہی۔ اب وہ لوگ بچی کو طلاق دینا چاہتے ہیں ۔ مفتی صاحب میں اپنی زندگی میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو مقدم رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فیصلہ یا قدم ایسا نہ ہو کہ جس سے مجھے دنیا و آخرت میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے مگر اس بچی کو لے کر میں بہت پریشان ہوں اور اس کی والدہ یعنی میری بیوی اس کی ٹینشن کی وجہ سے کافی بیمار ہو گئی ہے۔ ہمارا چھوٹا سا گھر ہے جس میں میرا بیٹا، اس کی بیوی اور ایک بچی (اڑھائی سال)، میری بیوی اور میری چھوٹی بیٹی رہتی ہے اب اگر خدا نخواستہ میری بچی طلاق لے کر گھر آ جاتی ہے تو دوبارہ سے گھر میں وہی پریشانی اور دنگا فساد ہو گا اور میری پوتی پر بھی اس کا برا اثر پڑے گا اور ہمیں اس بات کا خطرہ ہے کہ کسی دن یہ کسی کو جانی نقصان نہ پہنچا دے۔ پاکستان میں کئی ایسے ادارے ہیں (جیسا کہ ایدھی سنٹر) جو ذہنی معذور اور لاوارث لوگوں کی عمر بھر کفالت کرتےہیں اور ان کی تعلیم، کھانے پینے اور رہائش کا بھی بندوبست کرتے ہیں۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی زندگی میں ہی اس بچی کو ایسے کسی ادارے میں داخل کروا دیا جائے تاکہ میرے باقی بچے سکون سے زندگی گزار سکیں۔ مفتی صاحب کیا میں ایسا فیصلہ کر کے اپنی بچی پر کوئی ظلم تو نہیں کر رہا اور کیا میں اس سے اللہ کی بارگاہ میں گناہگار تو نہیں ہوں گا؟ جواب درکار ہے۔ 

جواب

واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسےجس طرح صحیح و سالم بچہ کا تحفظ ضروری ہے، اسی طرح معذور بچہ کا تحفظ، دیکھ بھال، نگہداشت، کفالت و پرورش، تعلیم اور تربیت بھی ضروری ہے ، معذور بچہ کے ساتھ بھی اسی طرح محبت و شفقت کا سلوک ہونا چاہیے، جس طرح صحیح و سالم بچوں کے ساتھ ہوتا ہے،یہ بےرحمی کی بات ہوگی کہ کسی بچہ کو کسی وجہ سے اپنی شفقت سے محروم کردیا جائے۔معذور بچہ " مصیبت زدہ اشخاص" میں شامل ہے، اور مصیبت کے مارے افراد کے دکھ درد میں کام آنا، ان کی خدمت کرنا، ان کی پریشانی کو دور کرنا اور ان کی بے چینی کو دور کرنا بڑے ہی اجر و ثواب کا کام ہے، ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ  وسلم نے ارشاد فرمایا: جو دنیا میں مصیبت زدہ شخص کی پریشانی کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پریشانی اور بے چینی کو دور فرمائے گا ۔

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌من ‌وسع ‌على مكروب كربة في الدنيا، وسع الله عليه كربة في الآخرة."

(مسند احمد ،13/ 130 ط: مؤسسة الرسالة )

    ماں باپ کو سمجھنا چاہیے کہ معذور بچہ ان کے گناہوں کی بخشش اور مغفرت کا ذریعہ ہے، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو جو بھی مصیبت لاحق ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہ معاف کردیتا ہے، یہاں تک کہ جو کانٹا بھی چبھتا ہے، وہ اس کے گناہ کا کفارہ ہوجاتا ہے۔

"أن عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (‌ما ‌من ‌مصيبة تصيب المسلم إلا كفر الله بها عنه، حتى الشوكة يشاكها."

( صحیح البخاری، باب ماجاءفي كفارة المرضی، 5/ 2137ط:دارابن كثير)

 ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کمزوراورمعذورلوگوں کو امت کی نصرت اوررزق کاسبب بتایاہے کہ جب انسان ان پر رحم اورشفقت کرتاہےاورجوکچھ اللہ تعالی نے انہیں دیاہے اس میں سے ان پر خرچ کرتاہے تواس کی وجہ سے اسےدشمنوں پر مددملتی ہےاوریہ بات رزق  ملنے کاسبب ہوتی ہے۔

بخارشریف میں ہے:

"رأى سعد رضي الله عنه ‌أن ‌له ‌فضلا ‌على من دونه، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (هَلْ تنصرون وترزقون إلا بضعفائكم."

( صحیح البخاری ، باب: من استعان بالضعفاء والصالحين في الحرب، 3/ 1061 ط:دارابن کثیر)

اورترمذی شریف میں ہے:

"عن ‌أبي الدرداء قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «‌ابغوني ضعفاءكم، فإنما ترزقون وتنصرون بضعفائكم."

(سنن الترمذی ، باب ما جاء في الاستفتاح بصعاليك المسلمين،3/ 320ط: دارالغرب الاسلامی)

 لہٰذاصوررت مسئولہ میں سائل اوراس کےگھر والوں کو چاہیے کہ وہ  اس بیٹی کی دیکھ بھال اورخدمت کو اپنے لیے  بوجھ  نہ سمجھیں، بلکہ   اپنے لیے باعث ثواب سمجھتے ہوئے جاری رکھیں   اور آخرت میں اپنے لیے نجات کا ذریعہ سمجھیں۔اورمعذوروں کے کسی ادارےمیں داخل نہ کریں۔

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں