میرے ماموں کے بیٹے کا رشتہ طے ہوا، شادی ہوگئی، شادی کے ایک ماہ بعد معلوم ہوا کہ لڑکے کا کچھ سال پہلے ایکسڈنٹ ہوا تھا، جس کی وجہ سے دماغ پر چوٹ آئی تھی اور دماغ متاثر ہوا تھا، اب مستقل دوائیوں پر ہے، اب لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کو گھر بلالیا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ لڑکے کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے، میری بیٹی اس کے ساتھ وقت نہیں گزارسکتی، اور طلاق کا مطالبہ کررہے ہیں، حالاں کہ لڑکے کی دماغی حالت ٹھیک ہے صرف تھوڑا بہت نفسیات کا مسئلہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ لڑکی والوں کا طلاق کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے ؟
اگر ان کا مطالبہ درست ہے تو مہر کی ادائیگی کی کیا ترتیب ہوگی؟
واضح رہے کہ طلاق کی اجازت سخت مجبوری کی حالت میں دی گئی ہے، شدید مجبوری کے بغیر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے،حدیث شریف میں ہے:
"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة."
(سنن ابی داؤد، باب في الخلع، رقم:2226، ج:2، ص:268، ط:المكتبة العصرية)
”جو عورت بغیر کسی مجبوری کے اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرےاس پر جنت کی خوش بو حرام ہے۔“
لہذ اصورتِ مسئولہ میں اگر شوہر کا دماغی توازن صحیح ہوچکا ہے، اچھے بُرے کی تمیز کرسکتا ہے، علاج و معالجہ کے ذریعہ طبیعت بہتر ہے، اور مزید بہتری کی امید ہے، تو پھر معمولی نفسیاتی مسائل کی وجہ سے لڑکی والوں کا طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہوگا، بلکہ شرعی وجہ کے بغیر مطالبہ طلاق کے حکم میں داخل ہوگا، بصورت دیگر اگر مذکورہ شخص واقعةً ذہنی توازن ٹھیک نہ ہو، اور بیوی کی جان کو خطرہ ہو، تو اس صورت میں طلاق کے مطالبہ کا حق ہوگا، بہر صورت نکاح خواہ برقرار رہے یا طلاق ہو جائے، مذکورہ شخص کے نکاح کے موقع پر جو مہر مقرر ہوا تھا، وہ ادا کرنا لازم ہوگا۔
مشكوة المصابيح ميں ہے:
"وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أبغض الحلال إلى الله الطلاق. رواه أبو داود."
(كتاب النكاح ،باب الخلع و الطلاق ،ج:2،ص:978،ط:المكتب الاسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما الطلاق، فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم: الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص، بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً﴾ (النساء : 34) أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: ’’ أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق‘‘. قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة ".
(کتاب الطلاق، ج:3، ص:228، ط: دار الفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع."
(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة، ج: 1، ص: 303، ط: دارالفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101676
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن