بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذہنی دباؤ میں آکر طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے


سوال

 میرے شوہر نے 4 جون کو واٹس ایپ کے ذریعے مجھے طلاق کے پیپر سینڈکیے ہیں ،طلاق کے پیپر سوال کے ساتھ منسلک ہیں ، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا طلاق ہوگئی ہے یا نہیں ،اگر ہوئی ہے تو کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں ؟تفصیل سے رہنمائی فرمائیں ۔

وضاحت: میرے شوہر کا کہنا ہے کہ ان سے زبردستی یعنی زبانی دباؤ ڈال کر دستخط کروائے ہیں اور یہ دستخط انہوں نے پہلی جون 2022ء کو کیے ہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ طلاق جس طرح خود اپنی مرضی سے دینے سے واقع ہوجاتی ہے اسی طرح  ذہنی دباؤ میں بھی(جب کہ دباؤ ڈالنے والے کی طرف سےمارنے کی  یاکوئی عضو تلف  کرنے کی دھمکی نہ  ہو) طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

لہٰذاصورت مسئولہ میں اگرسائلہ  کےشوہر نےمحض ذہنی دباؤ میں (جب کہ دباؤ ڈالنے والے کی طرف سےمارنے کی  یاکوئی عضو تلف  کرنے کی دھمکی نہیں تھی)  منسلکہ طلاق نامہ پرہرطلاق  کےمضمون کےبعد دستخظ کردئیے تومنسلکہ طلاق نامہ کی روسے سائلہ  پرجب کہ نکاح کےبعدرخصتی ہوچکی ہوتینوں  طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ، سائلہ حرمت مغلظہ کے ساتھ اپنےشوہرپر حرام ہوگئی ہے  اور نکاح ختم ہوگیا ہے،اب رجوع   جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ۔سائلہ طلاق کے وقت سے (پہلی جون جب شوہر نے طلاق نامہ پر دستخط کیے)اپنی عدت( مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی  صورت میں بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح..."

(کتاب الطلاق،3/ 235،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(الفصل السادس في الطلاق بالكتابة) الكتابة على نوعين مرسومة وغير مرسومة ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب وغير موسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا وهو على وجهين مستبينة وغير مستبينة فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكن فهمه وقراءته ففي غير المستبينةلايقع الطلاق وإن نوى وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو."

(کتاب الطلاق،1/ 378،ط:رشیدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع."

(کتاب الطلاق،3/ 246،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - ﴿فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَه﴾[البقرة: 230] ،وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

( کتاب الطلاق،فصل في حكم الطلاق البائن،3/ 187،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدةوبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز."

(كتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعة،1/ 472،ط:مکتبة حقانية)

علامہ حصکفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير(أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا."

(الدر المختارمع ردالمحتار،کتاب الإکراہ، (6/ 129)ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں