بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زیر کفالت طالب علم کا کمایا ہوا پیسہ کس کی ملکیت ہوگی؟ اور 60000 روپے زکوۃ کا حکم؟


سوال

ایک مدرسے کا طالب علم ہے جس کے پاس ٦٠ہزار روپے نقدی ہے لیکن اس طالب علم کا والد صاحب ٥٠لاکھ روپے مقروض ہے، اور حال یہ ہے کہ مذکورہ طالب علم اپنے والد ہی کی کفالت میں ہے یعنی: نان نفقہ خرچہ وغیرہ والد صاحب ہی کرتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس ٦٠ ہزار روپے کا یہ طالب علم مالک ہے یا نہیں یعنی اس کا زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے یا والد صاحب کے مقروض ہونے کی وجہ سے اس پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔  نوٹ: مذکورہ ٦٠ ہزار روپے طالب نے مسجد کی امامتی کی تنخواہیں اور صدقات وغیرہ ملاکر جمع کیے ہیں، اور والد صاحب کو مذکورہ ٦٠ہزار روپے کا طالب علم کے پاس ہونے کا علم بھی نہیں ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ مذکورہ(60000) رقم طالب علم کی ملکیت ہے تاہم 60ہزار روپے  کی رقم آج کل(1443ھ =2022ء) کے حساب سے نصاب سے کم ہے، یعنی: ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر نہیں، بلکہ کم ہے؛ اس لئے اس طالب علم  کے پاس  اگراس کے علاوہ کوئی اور  مالِ زکوۃ نہیں، جس سے  یہ رقم ملاکر نصاب تک پہنچ جائے تو اس پر  اس رقم کی زکوۃ کی واجب نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والكسب للمكتسب كذا في المبسوط".

(الفتاوى الهندية: كتاب الشركة، الباب الأول في تفسير الشرب وركنه وشرط حله وحكمه (5/ 392)، ط. رشيديه)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"... أن الاكتساب يوجب الملك للمكتسب".

(المبسوط للسرخسي:كتاب النكاح، باب المهور (5/ 71)،  ط. دار المعرفة - بيروت، الطبعة: 1414هـ - 1993م)

فتاویہ ہندیہ میں ہے:

"(ومنها كون المال نصابا) فلا تجب في أقل منه".

(الفتاوى الهندية: كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها (1/ 172)، ط. رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100566

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں