ایک مدرسے کا طالب علم ہے جس کے پاس ٦٠ہزار روپے نقدی ہے لیکن اس طالب علم کا والد صاحب ٥٠لاکھ روپے مقروض ہے، اور حال یہ ہے کہ مذکورہ طالب علم اپنے والد ہی کی کفالت میں ہے یعنی: نان نفقہ خرچہ وغیرہ والد صاحب ہی کرتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس ٦٠ ہزار روپے کا یہ طالب علم مالک ہے یا نہیں یعنی اس کا زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے یا والد صاحب کے مقروض ہونے کی وجہ سے اس پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔ نوٹ: مذکورہ ٦٠ ہزار روپے طالب نے مسجد کی امامتی کی تنخواہیں اور صدقات وغیرہ ملاکر جمع کیے ہیں، اور والد صاحب کو مذکورہ ٦٠ہزار روپے کا طالب علم کے پاس ہونے کا علم بھی نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ مذکورہ(60000) رقم طالب علم کی ملکیت ہے تاہم 60ہزار روپے کی رقم آج کل(1443ھ =2022ء) کے حساب سے نصاب سے کم ہے، یعنی: ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر نہیں، بلکہ کم ہے؛ اس لئے اس طالب علم کے پاس اگراس کے علاوہ کوئی اور مالِ زکوۃ نہیں، جس سے یہ رقم ملاکر نصاب تک پہنچ جائے تو اس پر اس رقم کی زکوۃ کی واجب نہیں ہوگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والكسب للمكتسب كذا في المبسوط".
(الفتاوى الهندية: كتاب الشركة، الباب الأول في تفسير الشرب وركنه وشرط حله وحكمه (5/ 392)، ط. رشيديه)
مبسوط سرخسی میں ہے:
"... أن الاكتساب يوجب الملك للمكتسب".
(المبسوط للسرخسي:كتاب النكاح، باب المهور (5/ 71)، ط. دار المعرفة - بيروت، الطبعة: 1414هـ - 1993م)
فتاویہ ہندیہ میں ہے:
"(ومنها كون المال نصابا) فلا تجب في أقل منه".
(الفتاوى الهندية: كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها (1/ 172)، ط. رشيديه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309100566
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن