بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زینت (بناو سنگھار) اختیار کرنے کی تفصیل


سوال

بناؤ سنگھار کس حد تک اور کس کے لئے جائز ہے؟

جواب

با وقار رہنے کے لیے اور نعمت کے شکر کے اظہار کے لیے زینت اختیار کرنا جائز بلکہ مستحسن ہے مثلاً عید اور جمعہ کی نماز کے اجتماع کے لیے تیار ہونا۔

تاہم دنیاوی زینت حاصل کرنے میں اس قدر منہمک ہوجانا کہ آخرت سے غفلت ہوجائے، یہ پسندیدہ نہیں؛ چنانچہ آخرت سے غافل کرنے والے اور گناہوں میں ملوث کرنے والے بناو سنگھار  کی جو بنیاد ہے، شریعت میں اسے  بالکل ممنوع قرار دے دیا گیا ہے مثلاً مردوں کے لیے سونا استعمال کرنا، مردوں کا عورتوں سے مشابہت اختیار کرنا، عورتوں کا مردوں سے مشابہت اختیار کرنا، عورت کا اجنبی مرد کے لیے بناو سنگھار کرنا وغیرہ۔

اور جن امور کو شریعت میں صراحتاً منع نہیں کیا گیا، لیکن اس کا اثر بھی آخرت سے غفلت اور دنیاوی لذات کی طرف رغبت ہو، اس کو فقہاءِ کرام نے مکروہ زینت (بناو سنگھار) میں شمار کیا ہے مثلاً مرد کا زعفران سے رنگا ہوا لباس پہننا یاخالص سرخ رنگ کا لباس پہننا  وغیرہ

فتاوی شامی میں ہے :

"ويستحب التجمل وأباح الله الزينة بقوله تعالى - {قل من حرم زينة الله التي أخرج لعباده} [الأعراف: 32]- الآية وخرج صلى الله عليه وسلم رداء قيمته ألف دينار زيلعي."

(کتاب الخنثی، مسائل شتی، ۶ ؍ ۷۵۵، ط : سعید)

و فیہ :

"مطلب في الفرق بين قصد الجمال وقصد الزينة (قوله إذا لم يقصد الزينة) اعلم أنه لا تلازم بين قصد الجمال وقصد الزينة فالقصد الأول لدفع الشين وإقامة ما به الوقار وإظهار النعمة شكرا لا فخرا، وهو أثر أدب النفس وشهامتها، والثاني أثر ضعفها، وقالوا بالخضاب وردت السنة ولم يكن لقصد الزينة ثم بعد ذلك إن حصلت زينة فقد حصلت في ضمن قصد مطلوب فلا يضره إذا لم يكن ملتفتا إليه فتح، ولهذا قال في الولوالجية لبس الثياب الجميلة مباح إذا كان لا يتكبر؛ لأن التكبر حرام، وتفسيره أن يكون معها كما كان قبلها."

(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم ومالایفسدہ، ۲ ؍ ۴۱۷، ط : سعید)

حجة الله البالغة  میں ہے :

"اعلم أن النبي صلى الله عليه وسلم نظر إلى عادات العجم وتعمقاتهم في الاطمئنان بلذات الدنيا فحرم رءوسها وأصولها، وكره ما دون ذلك، لأنه علم أن ذلك مفض إلى نسيان الدار الآخرة مستلزم للإكثار من طلب الدنيا."

(اللباس والزینۃ، ۲ ؍ ۲۹۳، ط : دار الجيل، بيروت - لبنان)

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے :

"الأصل في التزين: الاستحباب؛ لقوله تعالى: {قل من حرم زينة الله التي أخرج لعباده والطيبات من الرزق}  وقوله صلى الله عليه وسلم من أنعم الله عليه نعمة، فإن الله يحب أن يرى أثر نعمته عليه."

(التزین، ۱۱ ؍ ۲۶۵، دارالسلاسل - الكويت)

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے :

"هذا، وقد تعرض للتزين أحكام تكليفية أخرى، فمنه ما هو واجب، وما هو مكروه، وما هو حرام.

ومن أمثلة ما هو واجب: ستر العورة، وتزين الزوجة لزوجها متى طلب منها ذلك.

ومن أمثلة ما هو مستحب: تزين الرجل للجمعة والعيدين، وخضاب الشيب للرجل والمرأة

ومن أمثلة ما هو مكروه: لبس المعصفر والمزعفر للرجال .

ومن أمثلة ما هو حرام: تشبه الرجال بالنساء والعكس في التزين ، وتزين الرجل بالذهب."

(التزین، ۱۱ ؍ ۲۶۶، دارالسلاسل - الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں