بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو الحجة 1446ھ 01 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں وقف کی وصیت کرنے کا حکم


سوال

ہمارے والد محترم نے  مکمل ہوش و حواس کے ساتھ، پانچ بیٹوں اور چار بیٹیوں کو بٹھا کر یہ وصیت کی کہ:وہ مکان جس میں وہ رہائش پذیر ہیں، ان کی وفات کے بعد مدرسے کے لیے وقف ہوگا۔دو دکانوں میں سے ایک دکان مدرسے کے لیے وقف ہوگی تاکہ اس سے مدرسے کے اخراجات پورے ہوں، اور دوسری دکان ان کے ورثاء میں تقسیم ہوگی۔والد صاحب  دونوں دکانوں کا کرایہ لےرہے ہیں، اور مکان میں خود مقیم ہیں۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ: والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی اس وصیت پر عمل ہوگا یعنی مکان اورا یک دکان وقف شمار ہوں گے؟یا یہ سب ورثاء میں تقسیم ہوں گے ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کے والد كا اپنے مکان اورایک دکان  سے متعلق یہ کہنا کہ یہ مکان اور ایک دکان میرے مرنے کے بعد مدرسہ کے لیے وقف ہوگی، یہ شرعاً وقف نہیں بلکہ وصیت ہے،لہذا والد اگرآخری وقت تک اس وصیت پر قائم رہتے ہیں تو  ان کے انتقال کےبعد  یہ وصیت ان کے ایک تہائی مال  کے اندر نافذ ہوگی ، اور کل مال کا ایک تہائی حصہ وصیت کے  موافق مدرسہ کے لیے ہوگا۔ ،اور بقیہ مال وفات کے وقت موجود ورثاء کے درمیان شرعی حصص کے اعتبار سے تقسیم ہوگا۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"ولو ‌علق ‌الوقف ‌بموته بأن قال إذا مت فقد وقفت داري على كذا ثم مات صح ولزم إذا خرج من الثلث لأن الوصية بالمعدوم جائزة كالوصية بالمنافع ويكون ملك الميت باقيا فيه حكما فيتصدق عنه دائما وإن لم يخرج من الثلث يجوز بقدر الثلث ويبقى الباقي إلى أن يظهر له مال آخرأو تجيز الورثة فإن لم يظهر له مال ولم تجز الورثة تقسم الغلة بينهما أثلاثا ثلثه للوقف والثلثان للورثة ولو علقه بالموت وهو مريض مرض الموت فكذلك الحكم لأن الوصية لا تختلف بين أن تكون في الصحة أو في المرض وإن نجز الوقف في المرض فهو بمنزلة المعلق بالموت فيما ذكره الطحاوي والصحيح أنه بمنزلة المنجز في الصحة عند أبي حنيفة فلا يلزم وعندهما يلزم من الثلث لأن حق الورثة تعلق بماله فلا ينفذ تصرفه إلا من الثلث بخلاف ما إذا وقف في الصحة."

(كتاب الوقف،ج: 3، ص: 326، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144610102193

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں