بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیو کی شہادت/گواہی پر گواہی دینا/گواہ کو زبردستی عدالت لے جانے کا حکم


سوال

چند سالوں سے زید عمرو پر اپنے مال کا دعوی کر رہا تھا، اور زید کے پاس اس کے دعوی پر دو شرعی گواہان بھی موجود تھے اور کئی مجالس اور جرگہ میں بھی انہوں نے زید کے حق میں گواہی دی ہےجس کی ویڈیو بھی موجود ہے، اب ان دو گواہوں میں سے ایک گواہ عمرو(مدعی علیہ) کی طرف سے دھمکی ملنے کی وجہ سے گواہی دینے سے انکار کر رہا ہے اور زید (مدعی) کے حق میں گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ 

1۔ ویڈیو کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کیا شرعی گواہی کے قائم مقام ہوسکتی ہے یا قرینہ قاطعہ بن سکتی ہےجس کی وجہ سے قاضی فیصلہ کرسکتا ہے؟

2۔جن لوگوں نے گواہوں کو جرگہ میں گواہی دیتے ہوئے سنا ہے کیا وہ لوگ اس آدمی کی گواہی پر گواہی دے سکتے ہیں؟

3۔کیا مدعی مذکورہ شخص (یعنی جو اب گواہی دینے سے انکار کر رہا ہے) کو زبردستی عدالت لے جاسکتا ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ   ویڈیو  کو  شریعت میں  شہادت کے طور پر  پیش نہیں کیا جاسکتا، قضاء اور شہادت کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ جرم کو ثابت کرنے کے لیے شرعی شہادت یا مجرم کا اقرار ضروری ہے،ویڈیو کی شہادت کا اعتبارنہیں ہے،ویڈیو شریعت میں مقررہ گواہوں کے قائم مقام نہیں ہوتی  ، تاہم اگر مجرم نے اس کی بنا پر   جرم کا اقرار کرلیا  تو قاضی اس پر حکم لگاسکتا ہے۔

2۔صورتِ مسئولہ میں جن لوگوں نے مذکورہ دو گواہان کو جرگہ میں گواہی دیتے ہوئےسنا ہے،ان کے لیےان کی گواہی پر گواہی دینا درست نہیں ہے، البتہ اگر مذکورہ گواہوں میں سے کوئی گواہ کسی کو اپنی گواہی پر گواہ مقرر کردیتا ہے ،تب اس شخص کے لیے گواہ کی گواہی پر گواہی دینا درست ہوگا۔

3۔صورتِ مسئولہ میں اگر زید کے پاس اپنے مقدمہ کے لیے مذکورہ شخص کے علاوہ کوئی دوسرا گواہ موجود نہ ہو اور اس گواہ کی گواہی سے زید کے حق میں عدالت میں فیصلہ بھی ہوجانے کا یقین ہو اور زید اس سے گواہی دینے کا مطالبہ کرتا ہےتو اس صورت میں مذکورہ شخص کے لیے اپنی گواہی چھپانا ناجائز ہے، گواہی نہ دینے کی صورت میں وہ گناہ گار ہوگا، البتہ زید مذکورہ شخص کو   زبردستی عدالت لے جانے کا مجاز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والطريق فيما يرجع إلى حقوق العباد المحضة عبارة عن الدعوى والحجة: وهي إما ‌البينة أو الإقرار أو اليمين أو ‌النكول عنه أو القسامة أو علم القاضي بما يريد أن يحكم به أو القرائن الواضحة التي تصير الأمر في حيز المقطوع به."

(كتاب القضاء،ج:5،ص:354،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط أداء الشهادة فأنواع۔۔۔ أما الشرائط العامة فمنها العقل؛ لأن من لا يعقل لا يعرف الشهادة فكيف يقدر على أدائها، ومنها البلوغ فلا تقبل شهادة الصبي العاقل؛ لأنه لا يقدر على الأداء إلا بالتحفظ، والتحفظ بالتذكر، والتذكر بالتفكر، ولا يوجد من الصبي عادة؛ ولأن الشهادة فيها معنى الولاية۔۔۔ومنها العدالة، لقبول الشهادة على الإطلاق فإنها لا تقبل على الإطلاق دونها."

(کتاب الشہادۃ،بيان ركن الشهادة،ج:6،ص:268-267،ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا بأس للإنسان أن يحترز عن قبول الشهادة وتحملها، وفي باب العين من كراهية الواقعات رجل طلب منه أن يكتب شهادته، أو يشهد على عقد فأبى ذلك، فإن كان الطالب يجد غيره جاز له الامتناع عنه وإلا فلا يسعه الامتناع كذا في الذخيرة وعلى هذا أمر التعديل إذا سئل من إنسان، فإن كان هناك سواه من يعدله يسعه أن لا يجيب وإلا لم يسعه أن لا يقول فيه الحق حتى لا يكون مبطلا للحق كذا في المحيط.ويلزم أداء الشهادة ويأثم بكتمانها إذا طلب المدعي، وإنما يأثم إذا علم أن القاضي يقبل شهادته وتعين عليه الأداء، وإن علم أن القاضي لا يقبل شهادته، أو كانوا جماعة فأدى غيره ممن تقبل شهادته فقبلت قالوا لا يأثم."

(کتاب الشہادات،الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها والامتناع عن ذلك، ج:3،ص:452،ط:رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

"ما يتحمله الشاهد على نوعين: نوع يثبت حكمه بنفسه بلا إشهاد كالبيع والإقرار وحكم الحاكم والغصب والقتل، فإذا سمع شاهد البيع والإقرار وحكم الحاكم، أو رأى الغصب والقتل وسعه أن يشهد، وإن لم يشهد عليه، ويقول أشهد أنه باع، ولا يقول: أشهدني لئلا يكون كاذبا. ونوع لا يثبت حكمه بنفسه كالشهادة على الشهادة، فإذا سمع شاهدا يشهد بشيء لم يجز له أن يشهد على شهادته إلا أن يشهده كذا في الكافي."

(کتاب الشہادات،الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها والامتناع عن ذلك، ج:3،ص:452،ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100303

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں