بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

زیادہ محبت کرنے والی عورت سے شادی کرو سے کیا مراد ہے؟


سوال

حدیث میں آتا ہے کہ محبت کرنے والی عورتوں سے شادی کرو، کچھ لوگ اس کا مطلب یہ بھی لیتے ہے کہ اگر کوئی لڑکی تمہیں پسند یا تم سے محبت کرتی ہو اور لڑکا اس کے ساتھ تعلق میں ہو تو محبت کی بنا پر شادی کرنی چاہیے ،کیا اس حدیث کا یہ مطلب ہم یہاں لے سکتے ہیں ؟ یا حدیث کا مطلب عام حالات میں جس طرح ہمارے ہاں رشتے ہوتے ہیں ،  اس میں مراد لیا جاسکتا ہے ؟ اور اگر ارینج میرج کرنی ہو اور لوگ پرائے ہوں تو اس میں پتا کیسے لگایا جاسکتا ہے کہ عورت محبت کرنے والی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرآن کریم او ر احادیث مبارکہ کے معانی اور مفاہیم وہی معتبر ہیں جو مفسرین ِ کرام اور شارحین ِ حدیث نے بیان کیے ہیں ،عام آدمی اگر قرآن کریم کی کسی آیت یا احادیث مبارکہ میں سے کسی حدیث کا وہ مفہوم اور معنی مراد لے جو  مفسرینِ کرام اور شارحین ِ حدیث  کے بیان کردہ معنی اور مفہوم کے خلاف ہو ،تو وہ معتبر نہیں ہے۔

لہذا سوال میں جس حدیث مبارک کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک ارشاد کا مفہوم ہے کہ   ایسی عورت سے شادی کرو جو بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہو؛ اس لیے کہ میں تمہاری( کثر ت کی )وجہ سے( قیامت کے دن) دوسری امتوں  پر فخر کروں گا۔

 شارحین ِ حدیث فرماتے ہیں کہ عورت کے زیادہ محبت کرنے اور زیادہ بچے جننے کے علم  اس کے خاندان کی دیگر عورتوں سے معلوم ہوگا کہ وہ اگر اپنے شوہروں سے زیادہ محبت کرنے میں مشہور و معروف  ہیں اور ان کی اولاد بھی زیادہ ہے تو یہ بھی اسی طرح ہوگی ؛اس لیے کہ عموما  خاندان کے اندر عورتوں کی صفات ایک جیسی ہوتی ہیں ،کیوں کہ جس طرح شریف خاندان کی اولاد عموما شریف ہوتی ہے اسی طرح مذکورہ دونوں صفات بھی نسلوں میں عام طور پر منتقل ہوتی ہیں، مذکورہ حدیث کا جو مفہوم اور مطلب سوال میں بیان کیاگیا ہے یہ درست نہیں ہے ، کیوں کہ قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ کی واضح نصوص ہیں کہ غیر محرم مرد و عورت کے  آپس میں تعلقات  اورمحبت  جائز نہیں۔

وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح :

"(وعن معقل بن يسار) أي: المزني، وهو ممن بايع تحت الشجرة (قال: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تزوجوا الودود» ) التي تحب زوجها (الولود) أي: التي تكثر ولادتها، وقيد بهذين لأن الولود إذا لم تكن ودودا لم يرغب الزوج فيها، والودود إذا لم تكن ولودا لم يحصل المطلوب وهو تكثير الأمة بكثرة التوالد، ويعرف هذان الوصفان في الأبكار من أقاربهن، إذ الغالب سراية طباع الأقارب بعضهن إلى بعض، ويحتمل والله تعالى أعلم أن يكون معنى تزوجوا اثبتوا على زواجها وبقاء نكاحها إذا كانت موصوفة بهذين الوصفين."

(کتاب النکاح،5/ 2047،ط:دار الفکر)

مظاہر حق جدید میں ہے:

’’کسی خاندان وکنبہ کا عام  مشاہدہ اس کی کسی عورت کے لیے ان صفتوں کا معیار بن سکتا ہے، چناں چہ ان اکثر لڑکیوں میں یہ صفتیں موجود ہو سکتی ہیں جن کے خاندان و قرابت داروں میں ان صفتوں کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے ،عام طور پر چوں کہ اقرباء کے طبعی اوصاف ایک دوسرے میں سرایت کیے  ہوتے ہیں اور عادت اور مزاج میں کسی خاندان و کنبہ کا ہر فرد ایک دوسرے کے ساتھ یکسانیت رکھتا ہے ، اسی لیے کسی خاندان کی لڑکی کے بارے میں اس کے خاندان کے عام مشاہدے کے پیش نظر ان اوصاف کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔‘‘

(ج:3،ص:249،ط:دار الاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100580

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں