بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زوج اول و ثانی دونوں کی اولادوں کو ان کی والدہ کے ترکہ سے حصہ ملے گا


سوال

ہم کل چھ بھائی  بہن ہیں،دوبھائی اور چار بہنیں ہیں ،والدین کے انتقال کے بعد ہم نے والدین کی ملکیتی مکان جو موسی کالونی کراچی میں واقع ہے،آپس میں رضامندی سے شریعت کے مطابق تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے،ہماری ایک بہن جس کا انتقال ہوگیا ہے،اس کی دوشادیاں ہوئی تھیں ،پہلے شوہر سے تین بیٹے اور ایک بیٹی  ہےاور دوسرے شوہر سے ایک بیٹی  ہے،پہلے شوہر کے بیٹے اس کے ساتھ رہتے ہیں اور دوسرے شوہر کی ایک بیٹی میرے پاس ہے،اب ہماری بہن کا جو حصہ ہے،کیاوہ اس کے پہلے شوہر سے تین بیٹے اور ایک بیٹی   کے  مابین تقسیم ہوگا یا دوسرے شوہر کی ایک بیٹی کو بھی اس میں سے حصہ ملے گا،اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مرحوم والدین کے ملکیتی مکان کو دوبھائیوں اور چار  بہنوں میں شرعی اعتبار سے تقسیم کرنے  کے بعد مرحومہ بہن کے حصے میں مکان کا جو حصہ  آئے   وہ حصہ  مرحومہ کے پہلے  شوہر  سے تین بیٹے اور ایک بیٹی اور دوسرے شوہر سے ایک بیٹی دونوں  کو حصہ ملے گا،اسی طرح اگر انتقال کے وقت مرحومہ   کا دوسرا شوہر زندہ تھااور مرحومہ اس کے نکاح میں تھی تواس  وقت مرحومہ کے ترکہ میں سے  سب سے پہلے مرحومہ کے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کا خرچہ نکالنے کے بعد ،اگر مرحومہ پر کوئی قرضہ ہے تو اس کو ادا کرنے  کے بعد اور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو ایک تہائی ترکہ میں نافذ کرنے  کے بعد باقی کل ترکہ کو32 حصوں میں تقسیم کرکے 8 حصے اس کے شوہر کو ،6 حصے ہرایک بیٹے کو اور 3 حصے ہرایک بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہوگی:

مرحومہ  زوجہ:4 /32 

شوہر بیٹابیٹابیٹابیٹی بیٹی
13
866633

یعنی فی صد کے اعتبار سے 25 فیصد شوہر کو ،18.75 فی صد  ہر ایک بیٹے کواور 9.375 فی صد ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

اور اگر مرحومہ بہن کے انتقا ل کے وقت شوہر حیات نہیں تھایا حیات تھالیکن مرحومہ کو شوہر نے  طلاق دی ہے اور مرحومہ نے اس کی عدت بھی گزاردی ہےاس کے بعد اس کا انتقال ہوا ہے   تو اس وقت مرحومہ کا یہ حصہ (ترکہ )صرف ان تین بیٹوں اور دوبیٹیوں کے مابین 8 حصوں میں  تقسیم کیاجائے گا،ہرایک بیٹے کو2 حصے اور ہرایک بیٹی کو 1 حصہ ملے گا،فیصد کے اعتبار سے  25 فی صد ہرایک بیٹے کو اور12.5 فی صد ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604101693

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں