بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زوال سے پہلے جمعہ کی اذان اور سنتوں کا حکم


سوال

ہم جمعہ 1:30 کو پڑھتے ہیں جب کہ پہلی  اذان 12:30 کو ہی  پڑھتے ہیں۔ شروع ظہر 12:43 کو ہے۔ اس طرح ہم پہلی  اذان زوال میں ہی دیتے ہیں، اذان کے ساتھ ہی کچھ لوگ سنت ادا کرتے ہیں، مہر بانی کر کے رہنمائی  کیجیے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب ظہر کا وقت ۱۲ بج کر ۴۳ منٹ پر داخل ہوتا ہے تو پھر اس سے پہلے ۱۲ بج کر ۳۰ منٹ  پر اذان دینا اور سنتین ادا کرنا درست نہیں ہے۔ وقت داخل ہونے سے پہلے  اذان دینے  اور سنتوں ادا کرنے کی صورت میں  وقت داخل ہونے کے بعد اذان اور سنتوں کا  اعادہ ضروری ہوگا۔ 

اعلاء السنن میں ہے:

"عن انس بن مالك رضي الله عنه ان رسول الله كان يصلي الجمعة حين تميل الشمس رواه الامام البخاري.

قوله:"عن انس بن مالك " الي اخر الاحاديث. قلت: دلالتها علي مواظبة النبي صلي الله عليه وسلم و اجلة الصحابة علي ادائهم الجمعة بعد الزوال ظاهرة   و قال الحافظ في "الفتح " : فيه اي في حديث انس اشعار بمواظبته علي صلاة الجمعة اذا زالت الشمن."

(کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج نمبر۸، ص نمبر ۵۹، ادارۃ القران و العلوم الاسلامیۃ) 

الفتاوى الهندية  میں ہے:

"تقديم الأذان على الوقت في غير الصبح لا يجوز اتفاقا وكذا في الصبح عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى وإن قدم يعاد في الوقت. هكذا في شرح مجمع البحر الرائق لابن الملك وعليه الفتوى. هكذا في التتارخانية ناقلا عن الحجة وأجمعوا أن الإقامة قبل الوقت لا تجوز، كذا في المحيط."

(کتاب الصلاۃ باب الاذان ج نمبر ۱ ص نمبر ۵۳،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں