بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

 زوال کے وقت عبادت منع کیوں ہے؟ 


سوال

 زوال کے وقت عبادت منع کیوں ہے؟مدلل جواب عنایت فرمائیں!

جواب

حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، طلوع کے وقت، استواءِ شمس (جسے عرف میں زوال کہا جاتاہے) کے وقت اور غروب کے وقت۔

ان اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا جب حدیث شریف میں ان اوقات میں نماز کی ممانعت ہے تو مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ ان اوقات میں نماز ادا نہ کرے، خواہ اس کی کوئی اور وجہ ہو یا نہ ہو، یا حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے۔

تاہم مقاصدِ شریعت سے بحث کرنے والے محققین علماءِ کرام نے اَحکامِ شرع کی حکمتیں اور مصالح اور عقلی توجیہات بھی پیش کی ہیں، جن میں سے بعض احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً مذکور ہیں، اور بعض کی طرف نصوص میں اشارہ موجود ہے، اور کچھ عقلِ سلیم کی روشنی میں سمجھ آتی ہیں، لیکن ایسی حکمتوں کی روشنی میں شریعت کے ثابت اَحکام میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

مذکورہ ممنوعہ اوقاتِ نماز کی وجہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ ہے کہ مشرکین و مجوس ان اوقات میں آفتاب کی پرستش کرتے تھے اور اس کو سجدہ کرتے تھے؛ چناں چہ ان کی مشابہت سے بچنےکے لیے اس سے منع کیا گیا۔ (حجۃ اللہ البالغہ 2/21، کتب خانہ رشیدیہ دہلی)

 مزید یہ کہ ان تین اوقات میں شیطان بھی سورج کے قریب ہو جاتا ہے اور  بزعمِ خود اپنے آپ کے معبود اور مسجود ہونے پر خوش ہوتا ہے۔

لیکن واضح رہے کہ اس حکمت کا اعتبار  تشریعِ اَحکام کے وقت کیا گیا، لہٰذا اسے دیکھ  کر اِس دور میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آج سورج کی پرستش کرنے والے مشرکین فلاں فلاں وقت بھی عبادت کرتے ہیں یا مذکورہ اوقات میں نہیں کرتے تو اب ان اوقات میں نماز کی اجازت دی جائے، اور جن اوقات میں کرتے ہوں ان میں منع کردیا جائے، اب شرعی منصوص اَحکام میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں ہے، خواہ وہ ایسی حکمت کی روشنی میں ہو جو منصوص ہو، کیوں کہ شریعت کے اَحکام مقرر ہوجانے کے بعد کسی کو ان میں تبدیلی کا حق نہیں ہے۔

صحيح البخاري (4 / 122):
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا طلع حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتى تبرز، وإذا غاب حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتى تغيب،

3273 - ولاتحينوا بصلاتكم طلوع الشمس ولا غروبها، فإنها  تطلع بين قرني شيطان، أو الشيطان».

ترجمہ : رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو! جب آفتاب کا کنارہ طلوع ہو تو نماز ترک کردو یہاں تک کہ وہ پورا طلوع ہوجائے اور جب آفتاب کا کنارہ غروب ہو تو نماز ترک کردو یہاں تک کہ پورا غروب ہوجائے اور تم اپنی نماز آفتاب کے طلوع اور غروب کے وقت نہ پڑھا کرو؛ کیوں کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 370، 374):

(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملا فلا يتأدى ناقصا، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريما. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة.

الفتاوى الهندية (1/ 52):

ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع. كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه. هكذا في التبيين ولايجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي.

الفتاوى الهندية (1/ 52):

تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.
منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر.... ومنها ما بعد صلاة الفجر قبل طلوع الشمس. هكذا في النهاية والكفاية ... ومنها ما بعد صلاة العصر قبل التغير. هكذا في النهاية والكفاية.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 375):

(لا) يكره (قضاء فائتة و) لو وترا أو (سجدة تلاوة وصلاة جنازة وكذا) الحكم من كراهة نفل وواجب لغيره لا فرض وواجب لعينه (بعد طلوع فجر سوى سنته) لشغل الوقت به، (قوله: أو سجدة تلاوة) لوجوبها بإيجابه تعالى لا بفعل العبد كما علمته فلم تكن في معنى النفل.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 296):

 فالنبي صلى الله عليه وسلم  نهى عن الصلاة في هذه الأوقات من غير فصل فهو على العموم والإطلاق، ونبه على معنى النهي، وهو طلوع الشمس بين قرني الشيطان وذلك؛ لأن عبدة الشمس يعبدون الشمس، ويسجدون لها عند الطلوع تحية لها، وعند الزوال لاستتمام علوها، وعند الغروب وداعا لها فيجيء الشيطان فيجعل الشمس بين قرنيه ليقع سجودهم نحو الشمس له، فنهى النبي - صلى الله عليه وسلم - عن الصلاة في هذه الأوقات لئلا يقع التشبيه بعبدة الشمس.

المبسوط للسرخسي (1/ 151):

 والأصل فيه حديث «عقبة بن عامر - رضي الله تعالى عنه - قال ثلاث ساعات نهانا رسول الله  صلى الله عليه وسلم  أن نصلي فيهن وأن نقبر فيهن موتانا عند طلوع الشمس حتى ترتفع وعند زوالها حتى تزول وحين تضيف للغروب حتى تغرب».
وفي حديث الصنابحي «أن النبي صلى الله عليه وسلم  نهى عن الصلاة عند طلوع الشمس وقال إنها تطلع بين قرني الشيطان كأن الشيطان يزينها في عين من يعبدونها حتى يسجدوا لها فإن ارتفعت فارقها فإذا كان عند قيام الظهيرة قارنها فإذا مالت فارقها فإذا دنت للغروب قارنها فإذا غربت فارقها فلا تصلوها في هذه الأوقات»

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں