بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زوجین میں نبھاؤ نہ ہونے کی صورت میں طلاق کا حکم،نیز دوسروں کی جاسوسی اور ٹوہ میں لگنا


سوال

میری شادی کو پانچ ماہ ہوچکے ہیں، ان پانچ ماہ میں میری بیوی تین مرتبہ ناراض ہوکر اپنے میکے جا بیٹھی تھی ،اور تینوں مرتبہ میں اسے منا کر لایا ہوں،مجھ میں اور میری بیوی میں بالکل بھی ہم آہنگی نہیں ہے،میں اس کے تمام حقوق ادا کرکے اس ہر ممکن خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہوں ،لیکن اس  سب کے باوجود وہ مجھ سے ناخوش ہے،اسے مجھ سے بے حد شکایتیں ہیں ،اور ہر کام میں  میری نافرمانی کرتی ہے،میرے منع کرنے کے باوجود ہماری ذاتی باتیں   اپنے گھر والوں  بتاتی ہے، اس نے  مجھے بتاۓ بغیر آٹھ ہفتے کا بچہ بھی ضائع کروادیا،اس  حرکت پر میں نے بمشکل صبر کیا ،لیکن اب یہ معاملہ میری برداشت سے باہر ہوگیا ہے اور مجھ سے مزید برداشت نہیں ہوتا،نہ وہ میرے ساتھ رہنے پر تیار ہے اور اب نہ میرا دل مزید اس رشتے کو برقرار رکھنے پر آمادہ ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ :

(1) اگر میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں تو مجھ پر کوئی گناہ تو نہیں ہوگا؟

(2)میرے سسرال والو ں کی جانب سے میری جاسوسی کی جارہی ہے ،کہ میں کیا کررہا ہوں ؟کہاں جارہا ہوں؟اور مجھے  ان کی جانب سے مسلسل دھمکیاں بھی مل رہی  ہیں،کیا  ان کا یہ فعل درست ہے؟

(3) میری بیوی کا میرے منع کرنے کے باوجود ہمارے درمیان ہونے والی ہر بات اپنے گھر والوں کو  بتانا درست ہے؟

جواب

(1) بصورتِ مسئولہ سائل کو چاہیے کہ  حتی الامکان گھر بسانے کی کوشش کرے طلاق دینا نہ مسئلے کا حل ہے  اور نہ شرعاً پسندیدہ،اس لیے اولاً بیوی کے ساتھ بیٹھ کر  براہِ راست معاملات کو حل کرے اور اس کو اس کی دینی ذمے داری بتاۓ اور شرعی تعلیمات سے اس کو آگاہ کرے  کہ ایک دوسرے کی باتوں کو باہر ذکر کرنا  اچھی بات نہیں ہے اور ساتھ ساتھ  اس کو دینی کتب پڑھنے کے لیے دے،اگر دونوں میں پھر بھی نباہ نہ ہو تو پھر  دونوں  خاندانوں کے بڑوں کے ذریعہ اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جاۓ،اس کے بعد بھی اگر نباہ ممکن نہ ہو  اور اصلاح کے بجاۓ مزید بگاڑ نظر آۓ تو پھر سائل کو  شرعاًطلاق دینے کا اختیار ہے۔

اور طلاق دینے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  آپ ایک ایسے طہر (یعنی بیوی کی پاکی کے ایام ) میں  جس میں بیوی کے قریب نہ گیے ہوں ،ایک طلاق دے دیں، ایک سے زائد نہ دیں،تین طلاقیں بیک وقت  دینا شرعاً ناجائز اور گناہ ہے،لہٰذا ایک طلاق کے بعد عدت(تین ماہواریاں )کے دوران  اگر معاملات بہتر نظر آئیں  تو رجوع  کرلیں،بصورتِ دیگر عدت گزرنے کے بعد عورت آزاد ہوجاۓ گی۔

قرآن مجید میں ارشادِ خداوندی ہے:

"‌ ‌الطَّلَاقُ ‌مَرَّتَانِ فَإِمْساكٌ ‌بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ."(البقرة:229)

ترجمہ:’’ طلاق (زیادہ سے زیادہ) دو بار ہے، اس کے بعد( شوہرکے لئے دو ہی راستے ہیں)یا  تو قاعدے کے مطابق (بیوی کو) روک رکھے(یعنی طلاق سے رجوع کرلے) یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے۔“

سننِ ابو داوؤد میں ہے:

"عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "‌أبغض ‌الحلال إلى الله عز وجل الطلاق."

(كتا ب الطلاق،‌ باب في كراهية الطلاق،505/3،ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:حضرت (عبداللہ)بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے."

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإيقاعه مباح) عند العامة لإطلاق الآيات أكمل (وقيل) قائله الكمال (الأصح حظره) (أي منعه) (إلا لحاجة)... بل يستحب لو مؤذية أو تاركة صلاة غاية، ومفاده أن لا إثم بمعاشرة من لا تصلي ويجب لو فات الإمساك بالمعروف ويحرم لو بدعيا.ومن محاسنه التخلص به من المكاره.

وفي الرد... (قوله لو مؤذية) أطلقه فشمل المؤذية له أو لغيره بقولها أو بفعلها  ...(قوله ومن محاسنه التخلص به من المكاره) أي الدينية والدنيوية بحر: أي كأن عجز عن إقامة حقوق الزوجة، أو كان لا يشتهيها."

(كتاب الطلاق،227،28،29/3،ط:سعيد)

(2) آپ کے سسرال کی جانب سے آپ کی جاسوسی کیے جانے کا عمل  شرعی و اخلاقی  اعتبار سے ناجائز عمل ہے،شریعت میں  لوگوں کے راز ڈھونڈنے اور ان کی  حرکات و سکنات  کی ٹوہ اور تجسس میں لگنے کو گناہ کبیرہ قرار دے کر  سخت ناپسند کیا گیا  ہے؛ لہٰذا ان کو چاہیے کہ اپنے اس عمل پر اللہ  تعالیٰ سے صدقِ دل سے توبہ کریں اور آپ سے اپنے اس عمل کی معافی مانگیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ."(الحجرات : 12)

ترجمہ:"اے ایمان والو!بہت سے گمانوں سے بچا کرو کیوں کہ بعضے گمان گناہ ہوتے ہیں،اور سُراغ مت لگایا کرواور کوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے،کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوۓ بھائی کا گوشت کھالے ، اس کو تو تم ناگوار سمجھتے ہو،اور اللہ سے ڈرتے ہو،بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا،مہربان ہے."(بیان القرآن)

صحیح بخاری میں   ہے:

"عن أبي هريرة،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (إياكم والظن، فإن الظن أكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، ولا تباغضوا، وكونوا ‌عباد ‌الله إخوانا)."

(كتاب الأدب،باب: ما ينهى عن التحاسد والتدابر،896/2،ط:قديمي)

ترجمہ:"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: بد گمانی سے اپنے آپ کو بچاؤ،کیوں کہ بدگمانی سب سے  جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کی   خبریں معلوم نہ کرو، تجسس نہ کرو،ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرواور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، اور  سب  لوگ اللہ کے بندے، آپس میں  بھائی بھائی بن جاؤ۔"

وفیہ ایضاً:

"عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من تحلم بحلم لم يره كلف أن يعقد بين شعيرتين، ولن يفعل، ومن استمع إلى حديث قوم، وهم له كارهون، أو يفرون منه، ‌صب ‌في ‌أذنه الآنك يوم القيامة..."

(‌‌كتاب التعبير، باب: من كذب في حلمه،1042/2،ط:قدیمی)

ترجمہ:" ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جس شخص  نے  کوئی جھوٹا خواب  گھڑ ا ،جو اس نے نہیں دیکھا تھا، تو بروز ِ قيامت اسے  حکم دیا جائے گا کہ وہ دو جؤ کے دانوں کے درمیان گرہ لگائے( تو اس کا عذاب کم ہوسکے گا) جب کہ ایسا وہ ہرگز نہیں کرسکے گا، اور  جو شخص لوگوں  کی باتیں سنتا ہے حالاں کہ وہ اسے پسند نہیں كرتے يااس سے  دور بھاگتے ہیں تو  قیامت کے دن اس شخص کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔"

(3) میاں بیوی  کو شریعت نے ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے،ان کی  آپس  کی ساری باتیں  امانت ہیں اور ان باتوں کو ظاہر کرنا  کئی گناہوں  مثلاً:غیبت، خیانت بدگمانی اور تجسس کاسبب ہے   اور یہ عمل ترک کرنا لازم ہے۔

فیض القدیر میں ہے:

"(خير النساء من تسرك إذا أبصرت) أي نظرت إليها (وتطيعك إذا أمرت) ها بشيء (وتحفظ غيبتك) فيما يجب حفظه (في نفسها ومالك) ومن فاز بهذه فقد وقع على أعظم متاع الدنيا وعنها قال في التنزيل: {قانِتاتٌ ‌حافِظاتٌ ‌لِلْغَيْبِ} قال داود عليه السلام: مثل المرأة الصالحة لبعلها كالملك المتوج بالتاج المخوص بالذهب كلما رآها قرت بها عيناه ومثل المرأة السوء لبعلها كالحمل الثقيل على الشيخ الكبير ومن حفظها لغيبته أن لا تفشو سره فإن سر الزوج قلما سلم من حكاية ما يقع له لزوجته لأنها قعيدته وخليلته."

(حرف الخاء،482/3،ط:المكتبة التجارية الكبرى)

تفسیرِ مظہری میں ہے:

"فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ  مطيعات لله تعالى فى أداء حقوق ازواجهنّ حافِظاتٌ لما يجب عليهن حفظه من الفروج واموال الأزواج وأسرارهم لِلْغَيْبِ اى فى غيبة الأزواج او المراد بالغيب ما غاب عن الناس من اسرار الأزواج وأموالهم الخفية."

(سورة النساء،98/2،ط:رشیدیة)

تفسيرِ منار ميں ہے:

"وأن المعنى ‌حافظات ‌للغيب بحفظ الله أي: بالحفظ الذي يؤتيهن الله إياه بصلاحهن; فإن الصالحة يكون لها من مراقبة الله تعالى وتقواه ما يجعلها محفوظة من الخيانة، قوية على حفظ الأمانة، أو حافظات له بسبب أمر الله بحفظه، فهن يطعنه ويعصين الهوى، فعسى أن يصل معنى هذه الآية إلى نساء عصرنا اللواتي يتفكهن بإفشاء أسرار الزوجية، ولا يحفظن الغيب فيها."

(سورۃ النساء،59/5،ط:الهيئة المصرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101572

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں