گزارش ہے کہ میں نے دو شادیاں کی ہیں، جب سے دوسری شادی کی ہے، اس وقت سے پہلی بیوی سے معاملات اچھے نہیں ہیں، وہ مجھے دوسری بیوی کو طلاق دینے کا کہتی ہے، اب دو سال ہو چکے ہیں کہ میری پہلی بیوی مجھ سے لا تعلق ہے، اپنے گھر رہتی ہے، مجھے اپنے گھر میں رہنے کی اجازت نہیں دیتی، اور میرے اس سے دو بیٹے ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان دو سالوں سے ہماری لا تعلقی کی وجہ سے نکاح میں کوئی فرق پڑتا ہے؟ اس سے طلاق واقع ہوتی ہے؟
واضح رہے کہ زوجین کی محض دوری اور لاتعلقی کی بنا پر نکاح نہیں ٹوٹتا جب تک نکاح ٹوٹنے کا کوئی شر عی سبب طلاق ، خلع وغیر ہ نہ پایا جائے، لہذا مذکورہ صورت میں جب سائل نےطلاق نہیں دی تو محض میاں بیوی کی ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے نکاح میں کوئی فرق نہیں آیا، نکاح بدستور باقی ہے، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم میاں بیوی کا اس طرح ایک دوسرے سے لاتعلق رہنا مناسب نہیں ہے، آپس کی رنجشوں کو مل بیٹھ کر ختم کرنے کی کوشش کی جائے، ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرنے کا اہتمام کریں۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
"هو رفع قید النکاح في الحال أو المآل بلفظ مخصوص."
(كتاب الطلاق، ج: 3، ص: 226، ط: سعيد)
وفيه أيضا:
"ورکنه لفظ مخصوص.
وفي رد المحتار: (قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة علی معنی الطلاق من صریح أو کنایة."
(كتاب الطلاق، ج: 3، ص: 230، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144401102044
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن