ہم چار بھائی ہیں اور والد کی بنائی ہوئی تین دوکانیں ہیں، تین بھائی کے ذمہ ایک ایک دوکان ہے اور میں امامت کرتا ہوں، امامت کی پوری تنخواہ اپنے والد کو دے دیتا ہوں ،البتہ فارغ وقت میں کچھ اور کام بھی کرتا ہوں، اس سے جو آمدن حاصل ہوتی ہے ،وہ میں اپنے پاس رکھتا ہوں، فارغ وقت کی حاصل شدہ آمدن میں اپنے اور اپنی بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہوں ،اور اس کے بعد جو کچھ رقم بچ جاتی ہے، کیا میں اس رقم سے کچھ کاروبار کرسکتا ہوں؟ والد اور بھائیوں کے علم میں لاۓ بغیر؟ ۔جبکہ دوکان کی آمدن سے مجھے کچھ بھی نہیں ملتا! باقی بھائی اپنے بیوی بچوں کا خرچہ اسی دوکان کی آمدن سے کرتے ہیں ۔ لیکن حساب والد کا ہی چلتا ہے گھر میں!
واضح رہے کہ سائل جو کچھ رقم کماتا ہیں چاہے تنخواہ کی صورت میں ہو یا فارغ اوقات میں کسی بھی جائز کام کے ذریعہ ،وہ تمام کی تمام رقم کا مالک سائل خود ہے ،لہذا وہ اس رقم سے جو بھی جائز کام کرنا چاہے کرسکتا ہے،والدین اور بھائیوں کے علم میں لاۓ بغیر شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة."
(كتاب البيوع،502/4،ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144409101266
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن