ہمارے علاقے میں ایک زمین جو مسجد کے بالمقابل واقع ہے، درمیان میں ایک راستہ ہے، اس خالی زمین میں بچوں کی دو قبریں ہیں، جن پر 30 سے35 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اور ان کے نام و نشان بھی مٹ چکے ہیں، اہل محلہ کی خواہش ہے کہ اس جگہ میں مدرسہ یا مکتب قائم ہو اور ان کو اس جگہ میں قبرستان یا کسی اور چیز کی کوئی ضرورت نہیں ۔
آپ حضرات سے استفتاء ہےکہ یہاں پر مکتب یا مدرسہ تعمیر کرنے کی گنجائش ہے یا اس زمین کو یُوں ہی خالی چھوڑ دیا جائے؟
واضح رہے کہ مالکِ زمین اس جگہ کو مکتب یا مدرسہ کے لیے وقف کرنے پر راضی ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ قبرستان کی زمین کسی کی ذاتی ملکیت ہو اور قبروں کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں مدفون میتیں بھی مٹی بن چکی ہوں تو مالک زمین کے لیے اس میں ہر قسم کا تصرف کرنا جائز ہے، اگر اُس کی اجازت سے مسجد یا مدرسہ بنایا جائے تو ایسا کرنا جائز اور درست ہے۔
لہذاصورتِ مسئولہ میں مذکورہ قبرستان کی زمین چوں کہ کسی شخص کی ذاتی ملکیت ہے ، اور اس میں موجود دونوں قبروں کے نشانات بھی پرانی ہونے کی وجہ سے مٹ چکے ہیں، اور مالک زمین اس جگہ پر مدرسہ یا مکتب بنانے پر راضی ہےتو ایسی صورت میں اس جگہ پر مدرسہ یا مکتب وغیرہ بنانا شرعاً جائز ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
" وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره؛ لأن الحرمة باقية."
(مطلب في دفن المیت: ج:2، ص:233، ط: سعید)
عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری میں ہے:
"فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجداً لم أر بذلك بأساً، وذلك؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لايجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد؛ لأن المسجد أيضاً وقف من أوقاف المسلمين لايجوز تملكه لأحد."
(باب الصلاة في مرابض الغنم، ج:6، ص:473، ط:دار الفكر)
منار القاری شرح صحيح البخاری میں ہے:
" قال العيني " فإن قلت: هل يجوز أن تبنى المساجد على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر السلمين عفت، فبنى قوم عليها مسجداً لم أو بذلك بأساً، وذكر أصحابنا أي الحنفية: أن المقبرة إذا عفَت ودثرت تعود ملكاً لأربابها، فإذا عادت ملكاً يجوز أن يبنى موضع المقبرة مسجداً."
(باب الصلاة في مواضع الإبل، ج:2، ص:13، ط:مكتبة دار البيان)
امداد الأحکام میں ہے:
”پرانی قبر کو مسجدمیں داخل کرنا“
”کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد بہت چھوٹی ہے، جس میں پورے طور پر نمازی نہیں آسکتے، اس کو بڑھانا چاہتے ہیں، مگر تین طرف سے بالکل جگہ نہیں اور دوسری طرف اگر مسجد بڑھائی جائے تو ایک قبر مسجد کے اندر آجاتی ہے، ایسی صورت میں مسجد کا کیا حکم ہے؟ اگر مسجد کا اسباب لے کر کشادہ زمین میں اس اسباب سے مسجد تعمیر کرائی جائے تو جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: سوال سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبر پرانی ہے، سو اگر ایسا ہے تو اس قبر کا نشان مٹا کر اس کی بلندی کو دوسری زمین کے ہموار کر کے اس زمین کو مسجد کے اندر لے لینا جائز ہے، بشرطیکہ موضع قبر وقف ہو، اگر وقف نہ ہو تو ورثاء میت سے یا جو اس زمین کا مالک ہو اجازت حاصل کر کے ایسا کیا جائے اور اگر جدید ہے، پرانی نہیں تو ابھی اس کو جزء مسجد بنانا جائز نہیں، جب تک کہ قدیم اور بوسیدہ نہ ہوجائے، اس صورت میں اس مسجد کو اس حال پر چھوڑ دیا جائے اور دوسری جگہ بڑی مسجد بنائی جائے، قدیم مسجد کامنہدم کرنا اور اس کا سامان جدید میں لگانا جائز نہیں۔ واللہ اعلم“
(احکام المقابر: ج:2، ص: 286، ط: مکتبہ دار العلوم، کراچی)
فتاوی مفتی محمود میں ہے:
”اگر واقعی قبرستان کسی کامملوک ہے اور ا س کے قبور مٹ چکی ہوں اور اتنا زمانہ گزر گیا ہے کہ یہ یقین ہو جائے کہ اہلِ قبور کی ہڈیاں مٹی ہوگئی ہوں گی تو مالک کی اجازت سے اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے، ورنہ جائز نہیں ۔“
(کتاب الجنائز: ج:3، ص:125، ط: اشتیاق اے مشتاق پریس)
فتاوی شامی میں ہے:
"فان شرائط الواقف معتبرۃ إذا لم تخالف الشرع ،و هو مالك فله أن يجعل ماله حيث شاء مالم يكن معصية."
(کتاب الوقف ،مطلب شرائط الواقف معتبرة: ج:6، ص:343، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101727
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن