بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ذاتی مکان کرایہ پر دینے والے کو زکوۃ دینے کا حکم


سوال

 ایک شخص کے پاس اپنا ذاتی مکان ہے، وہ اس نے کراۓپر دیاہوا ہے، اور خود دوسری جگہ کراۓ پر رہتا ہے، کیا یہ شخص زکوٰۃ لے سکتا ہے یا پھر اس کا اپنا ذاتی گھر ضرورت سے زائد میں شمار ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص یعنی جس کے پاس ذاتی مکان ہے جو کرایہ پر دیا ہے اور خود کرایہ کے مکان میں رہائش پزیر ہے اگر اس مکان سے حاصل ہونے والا کرایہ  خرچ ہوجاتا ہے، اور اس کے پاس بقدرِ نصاب یعنی ساڑھے باؤں تولہ چاندی کی مالیت کے برابر  رقم یا ضرورت و استعمال سے زائد اتنی مالیت کا سامان نہیں ہے، تو مذکورہ شخص مسلمان غیرسید ہونے کی صورت میں مستحقِ زکوۃ ہے اور ایسے شخص کو زکوۃ دینا جائز ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية."

(كتاب الزكوة، ج:1، ص:189، ط:مكتبه رشيديه) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144308101628

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں