بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذاتی مکان خریدنے کے لئے بینک سے قرضہ لینے کا حکم


سوال

الحمدللہ اس سال ہمارا حج کے لئے نام آگیا ہے ہم رقم بھی جمع کروا چُکےہیں،  میرا سوال یہ ہے کہ ہمارا اپنا گھر نہیں ہے، ہم کرائےکے گھرمیں رہتےہیں، کیا ابھی بینک سے قرض لے کر ہم گھر خرید سکتے ہیں ؟ اس صورت میں حج کے احکام میں کوئی مسئلہ تو نہیں پیش آئیگا ؟

جواب

واضح رہے کہ بینک کےساتھ کسی بھی طرح کے  تمویلی معاملات کرنا اور قرضہ لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ بینک کےتمام معاملات سود پر مشتمل ہوتے ہیں، اور از رُوئے قرآن وحدیث سود لینااور اس کو کسی بھی طرح سے استعمال کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہے، جیسے درجِ آیت واحادیث میں مذکور ہے:

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ [البقرة]

"ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک، اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔"

(سورۃ البقرۃ/ رقم الآیۃ:278/ ترجمہ:بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اجتنبوا السبع الموبقات»، قالوا: يا رسول الله وما هن؟ قال: «الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات."

(صحیح البخاری، کتاب الوصایا، باب قول اللہ تعالی ان الذین یاکلون اموال الیتامی، رقم الحدیث:2766، ج:2، ص:242، ط:المکتب الاسلامی)

"ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سات ہلاک کرنے والی باتوں سے دور رہو۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جادو کرنا اور اس جان کو ناحق مارنا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اور سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور جہاد سے فرار (یعنی بھاگنا) اور پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔"

اسی طرح سود خور سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے، حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أتيت ليلة أسري بي على قوم بطونهم كالبيوت، فيها الحيات ترى من خارج بطونهم، فقلت: من هؤلاء يا جبرائيل؟ قال: هؤلاء أكلة الربا."

(سنن ابن ماجہ، کتاب التجارۃ، باب التغلیظ فی الربا، رقم الحدیث:2273، ج:2، ص:763، ط:داراحیاءالکتب العربیۃ)

"ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شب مجھے (معراج میں) سیر کرائی گئی، میں ایک جماعت کے پاس سے گزرا جس کے پیٹ کمروں کے مانند تھے، ان میں بہت سے سانپ پیٹوں کے باہر سے دکھائی دے رہے تھے، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟  کہنے لگے کہ سود خور ہیں۔"

صورتِ مسئولہ  میں اپنا گھر خریدنے کے لئے بینک سے قرضہ لینا جائز نہیں ہے، اگر آپ  کے پاس  فی الحال اتنی رقم نہیں ہے جس سے آپ ذاتی مکان خرید سکیں اور قسطوں پر خریدنے کی بھی کوئی جائز صورت نہ بن سکے تو بھی آپ کے لیےبینک سے قرضہ لینے کی اجازت نہیں ہے، اگر  کسی سے غیر سودی قرض مل جائے تو لے لیں ، بصورتِ دیگر مکان خریدنے کے لیے رقم جمع کرنا شروع کر دیں  اور  جب تک رقم جمع نہ ہو جائے اُس وقت تک اپنی حیثیت کے مطابق کرایہ کے مکان میں رہے، شرعی حدود میں رہ کر کفایت شعاری سے کام لے، پھر جب پیسے جمع ہو جائیں تو اُن پیسوں سے مکان خرید لے۔

نیز اس دوران جو تکالیف آئیں ان پر صبر کرنا چاہیے؛ کیوں کہ مؤمن کی نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت پر ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جس حال میں راضی ہوں اور جس عمل کے نتیجے میں آخرت کی لازوال نعمتوں کا وعدہ ہو اسے مدِ نظر رکھتے ہوئے ان شاء اللہ دنیا کے مصائب ہیچ معلوم ہوں گے۔

  فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن".

(مطلب کل قرض جر نفعا،ج:5، ص:166، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں