بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذاتی ملکیت میں کتنی رقم اور چیزیں رکھنے کی اجازت ہے؟


سوال

میں اپنے پاس کتنی رقم رکھ سکتا ہوں؟ اسلام میں کتنی دولت کی پوچھ گچھ ہے؟ کتنے کپڑے بنا سکتا ہوں؟کیا وراثت  میں  چھوڑی  گئی رقم کا سوال ہے؟

جواب

واضح   رہے  کہ شریعت میں ذاتی ملکیت کے لیے کوئی مخصوص رقم یا سامان کی تحدید نہیں ہے،حلال آمدنی سے حاصل شدہ جتنا بھی مال ہو جس کے کمانے میں کسی  کی حق تلفی نہ کی گئی ہو ،  نہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو  وہ مال زیادہ ہو یا کم اس کو انسان اپنی ملکیت میں رکھ سکتا ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، اور  اس  مال کو   میراث میں چھوڑ کر جائے گا تو وہ مال ورثاء کا ہوجائے گا،وہ اس کو جس حساب سے خرچ کریں گے اس کی پوچھ گچھ اُن ہی سے ہوگی۔

مال کمانے سے متعلق سوال آپ سے کیا جائے گا،اور جو مال آپ خرچ کریں گے اس کے خرچ کا حساب بھی آپ سے لیا جائے گا،اور جو مال آپ کے ورثاء خرچ کریں گے اس کے خرچ کا حساب انہی سے لیا جائے گا۔

ضرورت  کے بقدر  آپ  جتنے چاہیں کپڑے سلواسکتے ہیں، بس ریا و نمود سے بچیں اور اعتدال سے نہ نکلیں۔

صحیح مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم اپنے ورثہ کو اس حال میں چھوڑو کہ وہ مال دار ہوں یہ زیادہ بہتر ہے  اس سے کہ تم انہیں محتاجی کی حالت میں چھوڑو کہ وہ دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کریں۔"

لہٰذا اپنی ضرورت سے زائد حلال مال کما کر اسے پس انداز رکھنا شرعًا ممنوع نہیں ہے، البتہ   صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں زکات واجب ہوگی، نیز صدقہ  فطر اور قربانی وغیرہ کے احکام بھی متوجہ ہوں گے، اسی طرح  قرآنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ میں زکات اور واجب صدقات کے علاوہ نفلی صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کی بے حد ترغیب دی گئی ہے، قرآنِ مجید کی بعض آیات کی روشنی میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اور دیگر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے یہ تھی کہ اپنی ضرورت سے زائد سب مال صدقہ کرنا ضروری ہے، تاہم جمہور امت نے دیگر تمام نصوص کو سامنے رکھ کر یہی فیصلہ کیا ہے کہ انسان اپنی ضرورت  اور واجب نفقات (اور صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں زکات وغیرہ واجبات)  سے زائد مال  جمع کرسکتا ہے، ہاں! حرص و ہوس، ریا و نمو اور تکبر وغیرہ رذائل سے دل کو پاک رکھے، اور جہاں کہیں کوئی مصرفِ خیر نظر آئے  (خواہ وہ از خود سوال کرے یا سفید پوش ہو) اپنی گنجائش کی حد تک وہاں صرف کرنے کی سعی کرے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200927

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں