بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذاتی مکان کرایہ پر دے کر کرایہ کے مکان میں رہنے والے کو زکوۃ دینے کا حکم


سوال

میری بھتیجی کا ایک ذاتی مکان ہے، وہ مکان اس نے کرایہ پر دے دیا ہے اور اس سے مہنگا مکان کرائے پر لیا ہے، اس کے شوہر کی بہت قلیل آمدنی ہے، کبھی کام ہوتا ہے، کبھی نہیں اور بھتیجی کے پاس ذاتی کوئی سرمایہ زیور وغیرہ نہیں ہے، اب کیا ہم اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اسی طرح میری ایک سالی ہے، اس کے شوہر کی بھی قلیل آمدنی ہے، اس کے پاس بھی ذاتی سرمایہ  زیور وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے، کیا اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بھتیجی اور سالی صاحب نصاب نہیں ہیں؛ یعنی ان کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقدی، سونا یاضرورت سے زائد سامان موجود نہیں ہےاور سائل کی بھتیجی نے ضررتاً جو مکان کرایہ پر لیا ہے اس کا کرایے میں اور ذاتی مکان کے کرایہ میں بہت فرق نہیں ہے،اور ذاتی مکان سے آنی والی آمدنی کرایہ کے مکان کے کرایہ کی ادائیگی میں صرف ہوتی ہو اوروہ آمدنی اس کے لیے کفایت بھی نہ کرتی ہو   تو سائل ان دونوں کو زکوۃ دے سکتا ہے۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الغنى الذي يحرم به أخذ الصدقة وقبولها فهو الذي تجب به صدقة الفطر والأضحية وهو أن يملك من الأموال التي لا تجب فيها الزكاة ما يفضل عن حاجته وتبلغ قيمة الفاضل مائتي درهم من الثياب والفرش والدور والحوانيت والدواب والخدم زيادة على ما يحتاج إليه كل ذلك للابتذال والاستعمال لا للتجارة والإسامة."

(کتاب الزکوۃ،فصل شرائط رکن الزکوۃ،فصل یرجع الی المؤدی الیہ،ج:2،ص48،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"وذكر في الفتاوى فيمن له حوانيت ودور الغلة لكن غلتها لا تكفيه ولعياله أنه فقير ويحل له أخذ الصدقة عند محمد وزفر، وعند أبي يوسف لا يحل الخ."

ـ(کتاب الزکوۃ،فصل اللذی یرجع الی المؤدی الیہ،ج:2،ص:48،ط:سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:ایک شخص کی  بہت سی زمین ہے مگر وہ آباد نہیں تو اس شخص کو زکوۃ دی جا سکتی ہے یا نہیں؟

جواب:جبکہ ان زمینوں سے اس کی حوائج پوری نہیں ہوتی اور وہ مالِ نامی بھی نہیں تو اس کو زکوۃ دینا درست ہے۔"

(باب مصرف الزکوۃ،ج:9،ص:572،ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101421

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں