بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذاتی استعمال کےلیے خریدے گئے پلاٹوں پر زکوٰۃ کا حکم


سوال

میں نے 2018سے اب تک چھوٹے چھوٹے پانچ پلاٹ خریدے ہیں، ان میں چار پلاٹ میں مستقبل میں فروخت کرناچاہتا ہوں، میرا یہ ارادہ ہے، اور ان چاروں پلاٹوں سے جو پیسے مجھے ملیں گے، میں ان پیسوں سے پانچویں پلاٹ پر اپنے لیے گھر بنانا چاہتا ہوں، میرے پاس اس وقت کوئی گھر نہیں ہے، مجھے پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان پلاٹوں پر زکوٰۃ لازم ہے یا نہیں؟

وضاحت: میں ہمیشہ اپنی فوری ضرورت سے زیادہ رقم سے پلاٹ وغیرہ خرید لیا کرتا تھا، اور اس وقت یہی سوچ ہوتی تھی کہ بینک وغیرہ میں رقم رکھنے کے بجائے اس رقم سے پلاٹ یا پھر کوئی اور چیز خریدی جائے، اور کل کو جب مجھے ضرورت پڑے گی، تو یا تو ان پر گھر بنالوں گا، یا پھر انہیں  فروخت کرکے گھر لے لوں گا، خاص طور پر پلاٹ اس لیے خریدنا کہ اس کو فروخت کرکے نفع کماؤں گا، ایسی کوئی نیت نہیں ہوتی تھی۔ 

ابھی بھی ان پلاٹوں کو فروخت کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے، کیوں کہ نہ میرا فی الحال گھر بنانے کا ارادہ ہے، اور نہ ہی میرے پاس اتنا سرمایہ ہے، یہ چار پلاٹ ہیں، لیکن ان کی مارکیٹ ویلیو اتنی نہیں ہے کہ جس سے میری ضرورت پوری ہوسکے، بلکہ مستقبل میں اگر کبھی ان سب کو یا ان میں سےکسی ایک کو  فروخت کرکے کسی ایک پلاٹ پر گھر بناسکوں گا، تو ہی ان کو فروخت کرنے کا ارادہ ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل نےپانچوں پلاٹ اس نیت سے خریدے ہیں کہ ان میں سے چار پلاٹ فروخت کرکے اس سے حاصل شدہ رقم کو پانچویں پلاٹ کی تعمیر میں لگائے گا، مذکورہ پانچوں پلاٹ تجارت یا نفع کمانے کی نیت سے نہیں خریدے گئے ہیں؛ لہٰذا پانچوں پلاٹوں پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی؛ کیوں کہ پانچوں پلاٹ اس نے ذاتی استعمال کےلیے خریدے ہیں، اور ذاتی استعمال کی اشیاء پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی ہے، 

التعریفات للجرجانی میں ہے:

"‌التجارة: عبارة عن شراء شيء ليباع بالربح."

(باب التاء، ص: 53، ط: دار الكتب العلمية)

الموسوعة الفقهية الکویتیة   میں ہے:

"التجارة في اللغة والاصطلاح: هي تقليب المال، أي بالبيع والشراء لغرض الربح."

(حرف التاء، التجارة، ج: 10، ص: 151، ط: دار السلاسل الكويت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا في ثياب البدن)... (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة... (وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول)... (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض".

(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 265-267، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(لا يبقى للتجارة ما) أي عبد مثلا (اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لا يصير للتجارة) وإن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة.

قال في الرد:(قوله: كان لها إلخ) لأن الشرط في التجارة مقارنتها لعقدها".

(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 272، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100861

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں