بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ذاتی گھر، کرایہ کا گھر، موٹر سائیکل، اور زیورات پر زکات کا حکم


سوال

میرا ایک ذاتی مکان ہے، اور میرے پاس استعمال میں ایک موٹر سائیکل ہے  اور ہم تین بھائی ایک ساتھ کام کرتے ہیں، میرے پاس میری اہلیہ کے سونے کے دو سیٹ ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ان تمام چیزوں پر زکات فرض ہے یا نہیں؟

وضاحت: میرا ذاتی مکان نیو کراچی میں ہے، اس کا کرایہ دس ہزار آتا ہے، میں خود یہاں نیو ٹاؤن کے پاس کراۓ کے مکان میں رہتا ہوں، نیو کراچی والے گھر سے جو کرایہ آتا ہے اس میں سے آٹھ ہزار نیو ٹاؤن والےگھر کا کرایہ ادا کرتا ہوں، جب کہ بقیہ ڈھائی ہزار بل میں ادا کرتا ہوں۔

وضاحت: مزدوری کا کام کرتے ہیں، انجن وغیرہ ریپیئر کرتے ہیں۔

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر مکان کرایہ پر اٹھایا ہوا ہے، تو مکان کی قیمت پر زکات واجب نہیں ہوگی، اسی طرح  اگر کرایہ سال بھر محفوظ نہ رہتا ہو، استعمال میں آجاتا ہو، تو اس صورت میں استعمال شدہ کرایہ پر بھی زکات لازم نہیں ہوگی، البتہ اگر مذکورہ شخص پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو اس صورت میں جس دن اس کی زکات کا سال مکمل ہورہا ہو، اس دن تک جتنا کرایہ موجود ہو، استعمال میں نہ آیا ہو، اسے کل مال کے ساتھ شامل کرکے کل  مالیت کا ڈھائی فیصد بطورِ زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔

2۔ واضح رہے کہ ذاتی استعمال میں موٹر سائیکل پر زکات نہیں، البتہ اگر تجارت کی نیت سے موٹر سائیکل لی جاۓ تو اس کی زکات دینا واجب ہے۔

3۔  سائل کے پاس اس کی بیوی کے سونے کے جو زیورات ہیں، ان کی زکات نکالنا سائل کی بیوی کے اوپر لازم ہے۔

4۔  سائل کے پاس اس کی مزدوری سے جو رقم حاصل ہو، وہ نصاب کی مقدار کو بھی پہنچتی ہو ( ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے برابر سونا، چاندی یا ضرورت سے زائد رقم نقدی) اور اس پر سال بھی گزر گیا ہو تو ان پیسوں کی زکات دینا واجب ہے، اگر سائل کے پاس نصاب کے بقدر مال نہیں ہے تو اس پر زکات دینا بھی واجب نہیں ہے۔

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة."

(کتاب الزكوة، الباب الأول في تفسير الزكوة وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 172، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"(ومنها كون النصاب ناميا) حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في يد نائبه وينقسم كل واحد منهما إلى قسمين خلقي، وفعلي هكذا في التبيين فالخلقي الذهب والفضة؛ لأنهما لا يصلحان للانتفاع بأعيانهما في دفع الحوائج الأصلية فتجب الزكاة فيهما نوى التجارة أو لم ينو أصلا."

(کتاب الزكوة، الباب الأول في تفسير الزكوة وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 174، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100856

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں