بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذاتی گھر کی خریداری کے لیے سودی قرضہ کی لین دین کا حکم


سوال

ہمارے پاس اپنا مکان خریدنے کے لیے رقم پوری نہیں ہے، اور بقیہ رقم کے لئے ہمیں قرض کی ضرورت ہے، جو ہم بینک سے لینے کا سوچ رہے ہیں، جو کہ مکان کے کاغذات رکھوا کر قرض ملنا ہے جس پر اضافی رقم (قرض کے ساتھ) معینہ مدت تک دینا ہوتا ہے بینک کے قانون کے مطابق، آپ سے استدعا ہے کہ کیا یہ طریقۂ کار جائز ہے؟ نیز گذشتہ حکومت کا ’’پرائم منسٹر ہوم فائنانس‘‘ پروگرام آپ کے علم کے مطابق درست ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس میں شروع کے دس سال میں اضافی رقم کی شرح کم ہے، اور اکثر حضرات اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ شرح پر قرض کی رقم منافع کی مد میں اور بینک کے آپریشن  cost سے جوڑتے ہیں، سود پر نہیں، سود اس پروگرام میں گیارہویں سال سے آئے گا، آپ سے پورے کیس پر رہنمائی درکار ہے۔

جواب

ذاتی گھر کی خریداری کے لیے بینک سے سودی قرضہ کا لین دین ناجائز اور حرام ہے،کیوں کہ جس  طرح  سودی قرضہ دینا حرام ہے  اسی  طرح سودی قرضہ لینا بھی حرام ہے اور حدیث شریف میں سودی قرضہ لینے اور دینے والے دونوں پر لعنت وارد ہوئی ہے۔ 

نیز جس حکومتی اسکیم کا آپ نے ذکر کیا ہے اس اسکیم کے تحت بھی قرض وصول کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ہماری معلومات کے مطابق حکومت کی طرف سے ذاتی گھر مہیا  کرنے کے لیے جو اسکیم متعارف کروائی گئی ہے، اس کے لیے مختلف بینکوں اور اداروں کی طرف سے قرض فراہم کرنے کی دو صورتیں رائج ہیں:

بعض بینک اور ادارے تو صریح سودی قرضہ فراہم کرتے ہیں، اس کا حکم تو  واضح ہے کہ ذاتی گھر کی خریداری کے لیے بھی سودی قرضہ کا لین دین ناجائز اور حرام ہے،کیوں کہ جس  طرح  سودی قرضہ دینا حرام ہے  اسی  طرح سودی قرضہ لینا بھی حرام ہے اور حدیث شریف میں سودی قرضہ لینے اور دینے والے دونوں پر لعنت وارد ہوئی ہے، جب کہ بعض بینک اور ادارے اس اسکیم کے ذریعہ گھر خرید کے لیے اگرچہ سودی قرضہ کے نام سے تو قرضہ فراہم نہیں کرتے ہیں، بلکہ ذاتی گھر خریدنے کے خواہش مند افراد کے  ساتھ شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کرتے ہیں ، لیکن اس معاملے میں بہت  سے شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، مثلاً ایک ہی معاملے میں  كئي عقود  (بیع، شرکت اور اجارہ) کو جمع کرنا اور عملاً ایک عقد کو دوسرے عقد کے لیے شرط قرار دینا وغیرہ، یعنی کسی بھی بینک یا ادارے کے ساتھ شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کرنے کی صورت میں حقیقتًا یا حکمًا دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں ،ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی (اجارہ) کرائے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد حقیقتاً یا حکمًا ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں، جب کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عقد کی تکمیل سے پہلے اس عقد میں دوسرا عقد  داخل کرنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح ایک عقد کے لیے دوسرے عقد کو شرط قرار دینا بھی شرعًا ممنوع ہے ، اس  لیے  یہ طریقہ بھی  شرعی اصولوں پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے ناجائز   اور سودی قرضہ کا ایک ناجائز متبادل ہے۔

  خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح سودی قرضہ لے کر ذاتی گھر خریدنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی بینک یا ادارے کے ساتھ  شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کر کے ذاتی گھر لینا بھی جائز نہیں ہے۔اور سود تھوڑی مقدار میں ہو یا زیادہ مقدار میں بہرصورت حرام ہے، لہٰذا سودی معاملے کی قطعًا اجازت نہیں ہوگی۔

حدیث مبارک میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."

(صحيح مسلم،كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله، 3/ 1219، ط: دار إحياء التراث العربي)

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو هدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا."

(کتاب الحوالة، باب کل قرض جرّ منفعة، 14 /513، ط: إدارۃ القرآن)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101780

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں