بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الاول 1446ھ 12 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ضرورت کی بنا پر بیوی کے لیے طلاق نامہ میں تفویضِ طلاق کی شرط لگانے کا حکم


سوال

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ اگر عورت نکاح سے پہلے شرط رکھے کہ اسے طلاق کا حق دیا جائے تو کیا اس کو دیا جا سکتا ہے اور اگر دائمی یا وقتی طور پر یہ حق سونپا جا سکتا ہے؟ جیسا کہ مرد اگر پردیس میں جائے اور وہاں کے حالات درست نه ہو یا گمشدگی کا اندیشہ ہو تو مرد یہ حق عورت کو دائمی یا مخصوص وقت کے لیے دے سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ بوقتِ ضرورت(مثلاً شوہر کے باہر ملک جانے کی صورت میں لاپتہ ہونےکا اندیشہ ہو)  نکاح نامہ میں  بیوی کو دائمی طور پر یا وقتی طور پر طلاق کا اختیار دینے کی شرط لکھوانا  جائز ہے، اور اس اختیار دینے کو تفویضِ طلاق کہتے ہیں، تاہم اس کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ نکاح نامہ میں مذکورہ شرط لکھتے وقت نکاح کی طرف اضافت ونسبت موجود ہو، مثلًا یہ لکھاجائے کہ  اگر میں فلانہ بنتِ فلاں کے ساتھ نکاح کروں اور پھر شرائط مندرجہ اقرار نامہ ہذا میں سے کسی شرط کے خلاف کروں، تو مسماۃِ مذکورہ کو اختیار ہوگا کہ اس وقت یا پھر کسی وقت چاہے تو اپنے اوپر ایک طلاق بائن واقع کرکے اس نکاح سے الگ ہوجائے،  اگراس میں اضافت الی النکاح (یعنی نکاح کی طرف نسبت) نہ لکھی گئی، تو اقرار نامہ محض بیکار ہوگا،  اس کی  رُوسے عورت کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہ ہوگا۔تفویضِ طلاق درست ہونے کی صورت میں جب شرط کی خلاف ورزی پائی جائے تو دو آدمیوں کو گواہ بنا کر ان کو شرط کی خلاف ورزی بتا کر اپنے اوپر ایک طلاق بائن واقع کرکے نکاح سے نکل سکے  گی۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"(والثاني - تعليق التفويض بالشرط، وأنه أقسام) أحدها - تعليق التفويض بالغيبة وصورة كتابة هذا القسم شهدوا أن فلانا جعل أمر امرأته فلانة بيدها معلقا بشرط أنه متى غاب عنها من كورة كذا أو من مكان كذا يسكنان فيه غيبة سفر ومضى على غيبته عنها شهر أو كذا على ما شرطاه، ولم يعد إليها في هذه المدة فإنها تطلق نفسها تطليقة واحدة بائنة بعد ذلك متى شاءت أبدا وفوض الأمر في ذلك إليها، وأنها قبلت منه هذا الأمر قبولا صحيحا في مجلس التفويض ويتم الكتاب."

(كتاب الشروط، الفصل الثالث فى الطلاق، ج:6، ص:260، ط:مكتبه رشيديه) 

فتاوی شامی (رد المحتار علی الدر المختار)  میں ہے:

"(شرطه الملك) حقيقة كقوله لقنه: إن فعلت كذا فأنت حر أو حكما، ولو حكما (كقوله لمنكوحته) أو معتدته (إن ذهبت فأنت طالق) (، أو الإضافة إليه) أي الملك الحقيقي عاما أو خاصا، كإن ملكت عبدا أو إن ملكتك لمعين فكذا أو الحكمي كذلك (كإن) نكحت امرأة أو إن (نكحتك فأنت طالق)

(قوله شرطه الملك) أي شرط لزومه فإن التعليق في غير الملك والمضاف إليه صحيح موقوف على إجازة الزوج حتى لو قال أجنبي لزوجة إنسان إن دخلت الدار فأنت طالق توقف على الإجازة، فإن أجازه لزم التعليق فتطلق بالدخول بعد الإجازة لا قبلها وكذا الطلاق المنجز من الأجنبي موقوف على إجازة الزوج، فإذا أجازه وقع مقتصرا على وقت الإجازة بخلاف البيع فإنه بالإجازة يستند إلى وقت البيع والضابط فيه أن ما صح تعليقه بالشرط يقتصر وما لا يصح يستند بحر."

(كتاب الطلاق، باب تعليق الطلاق، ج:3، ص:344، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144208200665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں