بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ضرورتِ اصلیہ سے زائد رقم کی زکات کا حکم


سوال

مجھے سعودی عرب 25سال کام کرنے کے بعد، کچھ رقم ملی، اس میں سے سال بھر خرچ کرنے کے بعد کچھ پیسے بچ گیے، اس میں سے کچھ خاص رقم نقد، بچے کی تعلیم کے لیے مخصوص کی، جو اگلے دو تین سال تک استعمال ہو گی، جو فیس اور سواری اور بکس پر خرچ ہو گی، باقی پیسے میں سے آدھی رقم سعودی عرب میں بچوں کے اکاؤنٹ میں رکھی ہیں اور آدھی لاکرز میں پاکستانی بنک میں کرنٹ اکاونٹ میں رکھے ہیں، خرچ اور علاج معالجہ کے لیے رکھی ہیں، میری ذاتی کوئی دوسری آمدنی نہیں ہے، بچے باہر کام کر رہے ہیں، مگر ان کی نوکری کی کوئی گارنٹی نہیں، اگر ہو توگھر کا خرچہ بھیجتے ہیں، کیا میرے اس مال پر زکوۃ دینی ہو گی؟ اور اگر دینی ہو گی تو کتنی دینی ہو گی؟ اب اس پنشن کے مال کو سال ہونے کو ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کو  ملنے والی رقم اوروہ رقم جو بینک میں سائل کے ذاتی اکاؤنٹ میں رکھے ہوئے ہیں، اس میں سےجورقم سالانہ ضرورت اصلیہ(نان نفقہ، بچوں کی واجب الادافیس وغیرہ) میں استعمال ہونےکے بعدبچی ہے، تواگر وہ رقم تنہا یا دیگر اموالِ زکات (سونا، چاندی، مالِ تجارت یا نقدی)، کے ساتھ مل کر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچ جائے، توسائل صاحبِ نصاب کہلائے گا اوراس رقم پر سال بھی گزرچکاہے، توسائل پراس کی زکات دینالازم ہوگا،اور زکوۃ ڈھائی فیصد ہے۔

سائل کے جو پیسے ان کے (بالغ)بچوں کے اکاؤنٹ میں رکھےہیں، اگر سائل نے ان کو ہبہ(گفٹ)کرکے قبضہ بھی دے دیاہے، تو اس کی زکات ان بچوں پر ہوگی بشرط یہ کہ وہ عاقل بالغ ہوں، باقی زکات کی ادائیگی کی تفصیل وہی ہے، جو اوپر ذکر کردی گئی ہے۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(وسببه أي سبب افتراضها ملك نصاب حولي تام فارغ عن دين له مطالب من جهة العبادو فارغ عن حاجته الأصلية لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كثيابه أو تقديرا كدينه) قوله وفسره ابن ملك أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:259، ط:دارالفكر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها ‌فراغ ‌المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة، وكذا طعام أهله... وكذا كتب العلم إن كان من أهله وآلات المحترفين."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج:1، ص:172، ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں