بوقت ضرورت مسجد کی چھت پر جوتے پہن کر چڑھا جا سکتا ہے یا نہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
واضح رہے کہ زمین کا جو حصہ مسجد کے لیے وقف کر دیا جا ئے تو وہ حصہ تحت الثریٰ سے لے کر آسمان تک مسجد ہی کا حصہ ہے لہٰذا جو حکم مسجد کے اندر کے حصہ کا ہے وہی حکم اس کی چھت کا بھی ہے جس طرح مسجد میں جوتے پہن کر داخل ہونا خلاف ادب ہے اسی طرح مسجد کی چھت پر جوتے پہن کر چڑھنا بھی خلا ف ادب ہے،اگر کبھی جوتوں کے ساتھ مسجد کی چھت پر جانے کی ضرورت ہو تواس بات کااہتمام کیا جائے کہ جوتے پاک صاف ہوں ،ان کے ساتھ کوئی نجاست نہ لگی ہو۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"أن دخول المسجد متنعلا من سوء الأدب تأمل."
(ردالمحتار،كتاب الصلاة ،باب مايفسد الصلاة ومايكره فيها،ج:1،ص:657،ط:ايچ ايم سعيد كراچي )
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) كره تحريما (الوطء فوقه، والبول والتغوط) لأنه مسجد إلى عنان السماء (واتخاذه طريقا بغير عذر)۔۔۔۔۔۔۔۔قوله بغير عذر) فلو بعذر جاز."
(ردالمحتار،كتاب الصلاة ،باب مايفسد الصلاة ومايكره فيها،ج:1،ص:656،ط:ايچ ايم سعيد كراچي)
البحرالرائق میں ہے:
"قال في التجنيس وينبغي لمن أراد أن يدخل المسجد أن يتعاهد النعل والخف عن النجاسة ثم يدخل فيه احترازا عن تلويث المسجد وقد قيل دخول المسجد متنعلا من سوء الأدب."
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ،كتاب الصلاة،باب مايفسدالصلاةومايكره فىها،فصل استقبال القبلةبالفرج في الخلاء واستدبارها،ج:2،ص:37،ط:دار الكتاب العلمية)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
"ودخول المسجد متنعلا مكروه، كذا في السراجية."
(الفتاوى العالمگيرية،كتاب الكراهية،الباب الخمس في آداب المسجدوالقبلةوالمصحف وماكتب فيه شيءمن القرآن،ج:5،ص:394،:دارالكتب العلمية بيروت لبنان )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508101363
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن